صفحات

بدھ، 30 دسمبر، 2009

ehsas

آج پھر بشیر بدر کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔



اُس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد، میرے آنکھ میں آنسو آئے

اُس نے بہت بُرا کیا نا۔

پیر، 28 دسمبر، 2009

pashingoei

چند دن پہلے شور نے ایک پیشنگوئی کی تھی ۔ اور آج وہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن شور کو اپنے اِس پیشنگوئی کے درست ہونے پر بہت دکھ ہورہا ہے۔ شور بار باریہ سوچ رہا ہے۔ کہ اگر شور کی یہ پیشن گوئی اگر غلط ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ کبھی کبھار کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے۔ جن کی خواہش ہم نہیں کرتے ہیں۔ اور عموماً جب ایسا کوئی بات ہوجاتا ہے تو بہت دکھ پہنچتا ہے۔ آج شور کو بہت دکھ ہورہا ہے۔

جمعرات، 24 دسمبر، 2009

dant mein dard


آج شام سے شور کے دانت میں درد ہے اور وہ بار بار دروازے کی طرف نظر گڑائیے بیٹھا ہے۔ کہ کب کوئی آئے اور کہئے۔ آ پ کہ ٹوٹھ پیسٹ میں نمک ہے۔

sach

جھوٹ بولتے، جھوٹ پڑھتے، جھوٹ سنتے، جھوٹ دیکھتے دیکھتے اب ہم جھوٹ کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں۔ کہ اب ہمیں سچ سننا بہت بُرا محسوس ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص سچی بات کہہ دے تو ہم لوگ اُس شخص کے بارے یہی رائے دینے لگتے ہیں کہ یہ شخص فساد پھیلا رہا ہے۔ حالانکہ وہ شخص کوئی فسادی نہیں ہے۔ لیکن ہم لوگ اُس کے بارے میں یہی کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے۔ معاشرہ اُس شخص کو کبھی بھی وہ عزت نہیں دیگا جس کا وہ مستحق ہے۔ وہ شخص تب اچھا یا عزت دار کہلائیے گا۔ جب وہ ہماری طرح جھوٹ بولنا شروع نہ کردے۔

منگل، 22 دسمبر، 2009

kitne pani mein ho

کیسی تحریر چاہئیے وہ کوئی مضمون ہو افسانہ ہو، ناول ہو، نظم یا غزل ہو، اُس کو پڑھنے سے پہلے اگر اُس پر کوئی تبصرہ یا تنقید پڑھ لیا جائیے تو سمجھ لو کہ اُس تحریر کا سارا مزہ ختم ہوگیا۔ کیونکہ تبصرہ یا تنقید نگار آپ کو مجبور کرے گا۔ کہ آپ تحریر کو اُس کی نظر سے دیکھیں جس نظر سے اُس نے دیکھا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو یہ صیحح لگے تبصرہ یا تنقید پہلے پڑھنے سے تحریر کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی، اور پڑھنے والا بھی اپنی پوری توجہ سے اُس تحریر کو پڑھنے میں لگا دے گا۔ لیکن اِس سے یہ بھی تو ہوگا کہ پڑھنے والے کا اپنا نکتہ نظر کے لئے جگہ نہیں بچے گا، اُس کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوگا، یا وہ اپنی کوئی رائے نہیں بنا پائے گا۔
شور کے خیال میں اگر تحریر کو پہلے پڑھا جائے پھر بعد میں اُس پر کئے گئے تنقید یا تبصرے کو دیکھاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ اِس سے پڑھنے والے کو اپنی قابلیت کا اندازہ بھی ہوگا۔ کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔

پیر، 21 دسمبر، 2009

Gulgee

ایک دن شور کچھ پینٹنگ سائٹ دیکھ رہا تھا۔ اک لنک پر نظر پڑی لکھا ہوا تھا ، گل جی ۔ نام کچھ سنا سنا ساتھا، پھر شور کو یاد آیا کہ کہیں اسماعیل گل جی تو نہیں ہے۔ وہ مشہور پاکستانی پینٹر جس کو چند سال پہلے بے دردی سے قتل کیا گیا۔ گل جی کو شاید دسمبر کے مہینے میں قتل کیا گیا۔ اور آج بھی دسمبر ہے۔
اُس لنک پر گل جی کی چند پینٹنگ رکھے ہوئے ہیں۔
گل جی


جمعرات، 17 دسمبر، 2009

qasor war kon?

ہر ایک یہی کہتا ہے۔ دوسرے نے اُسے دھوکہ دیا ہے۔ وہ بُرا آدمی ہے۔ اُس نے میرے ساتھ بُرا کیا۔ لیکن کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ اُس نے کسی کا بُرا کیا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے۔ کہ وہ صیحح ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے وہ اچھا ہے۔ اور ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ میں تو اچھا تھا لیکن اُس نے غلط کیا ۔ کیا ہر وقت دوسرا غلط ہوتا ہے۔ وہ نہیں کیا ہر بار قصور سامنے والے کا ہوتا ہے۔ اُس کا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جناب سامنے والا کم ہی قصور وار ہوتا ہے۔ زیادہ تر غلطی ہم خود کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی غلطی مانتے نہیں۔ اور ہمیشہ سامنے والے کو قصوروار کہتے ہیں۔ لیکن سامنے والا بہت کم ہی قصور وار ہوتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بھائی کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے آپ کو قصوروار کہے گا۔ جو اپنی غلطی مان لے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا پاگل کہلائے گا۔ کیونکہ کوئی نارمل انسان اپنی غلطی مان کر خود کو قصور وار نہیں ٹھہراتا۔

بدھ، 16 دسمبر، 2009

pehli bar mohabbat ki hai

شور کو آج کل کے گانے زیادہ پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ آجکل گانوں میں شور زیادہ ہے۔ ایک شور کو دوسرا شور کب برداشت ہوتاہے۔ لیکن کبھی کبھار کچھ سلو ٹریک کو سننے کے دل کہتا ہے کہ دوبارہ سنا جائیے ۔ کچھ گانوں کے شاعری ایسی ہوتی ہے۔ جن کو باربار سننے کا موڈ ہوجاتا ہے۔ چند دن پہلے ایک فلم کا گانا ٹی وی پر چل رہا تھا۔ اُس کی شاعری سننے کے بعد شور کو ایسا لگا کہ اِس گانے کو دوبارہ سنا جائیے۔ لیکن ٹی وی پر اگر ایک بار گانا چل جائیے تو دوبارہ کب پلے ہو جائیے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن شور پاس عمرو عیار کا زنبیل کہلانے والا انٹرنیٹ ہے۔ جس میں نام لے کر طلب کروں۔ تو وہ مل جاتے ہے۔ تو کل رات شور نے وہ گانا ڈاؤن لوڈ کیا۔ ابھی اُس کے کمپیوٹر میں بج رہا ہے۔
فلم کا نام ہے۔ کمینے
شاعری۔ گلزار
گلو کار ۔ موہت چوہان
اور گانے کے بول ہیں۔ پہلی بار محبت کی ہے

kuch kahene ka moqah to do

ایک جگہ چند دوست بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔ گفتگو میں ایک دوست کسی کو بولنے کا موقع نہیں دے رہا تھا۔ جب بھی کوئی کچھ کہے رہا ہوتا۔ تو وہ شخص اُس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر خود کہنے لگتا ۔ کچھ دیر تک اُس کی اِس عادت کو برداشت کیا گیا۔ پھر ایک سے صبر نہ ہوا۔ اُس نے یہ طریقہ اپنایا کہ وہ شخص جب کبھی کچھ کہنے کہ کوشش کرتا وہ بات کو درمیان میں کاٹ لیتا، اُس شخص کو کوئی بھی بات مکمل کرنے نہیں دے رہا تھا۔ اُس شخص نے آخر تنگ آ کر کہا ۔ کہ بھائی مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع دے دو۔ تو اُس شخص نے جواب دیا کہ آپ نے کبھی خود کسی کو بولنے کا موقع دیاتھا جواب موقع مانگ رہے ہو۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود کسی کو بولنے نہیں دیتے لیکن جب اُسے کوئی بولنے نہیں دیتا بُرا مان جاتے ہیں۔

ہفتہ، 12 دسمبر، 2009

net is okay

آج شور کا نیٹ ٹھیک ہوگیا ہے۔ اور شور کے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ شور کیا لکھے۔ چلو شور یہ لکھ لے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کہ آج شور بہت خوش ہے۔ نیٹ کے ٹھیک ہونے پر اکثر لوگ تو خوش نہیں ہوتے لیکن شور بہت خوش ہوا ہے۔ کیونکہ شور ابھی تک بچہ ہے۔

بدھ، 2 دسمبر، 2009

internet problem

شور کے نیٹ کا پورا سسٹم درھم برھم ھے۔ اِس لئے بہت دنوں سے شور غائب ہے۔ ابھی موبائل فون کے ذریعے نیٹ سے کنکٹ ہوکر یہ پوسٹ لکھ رہا ہے۔ اور شور نے ابھی تک اپنے پیارے دوست مجھے نہیں بلکہ اپنے بلاگ کو بھی عید مبارک نہیں کہا۔
عید مبارک بلاگ اگر یہ مبارک باد باسی ہے تو کیا ہوا۔

بدھ، 4 نومبر، 2009

free ebook download

کہیں دنوں سے شور یہ کوشش کررہا تھا۔ کوئی ایسا سائٹ ہاتھ آئے ۔ جس میں انگریزی کے فری ای بک ہوں۔ کل شور نے ایساہی ایک سائٹ ڈھونڈ نکالا، جس میں کہیں کلاسیک انگلیش ناول ڈاؤن لوڈ کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ شور نے کہیں ناول ڈاؤن لوڈ کئے۔ اگر آپ کو بھی انگریزی ناولز پڑھنے کا شوق ہو۔ تو ضرور ویٹ کیجئے۔
http://www.planetebook.com/
کل شور یہ ایڈریس دینا بھول گیا تھا۔ اس لئے معذرت

اتوار، 1 نومبر، 2009

668

اپنے موبائل فون سے میسج بکس میں اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر ٹائپ کریں۔ اور اُسے سنڈ کریں۔
668 پر۔ اور پھر یہ دیکھئیے کہ آپ کے قومی شنا ختی کارڈ پر کتنے نمبر رجسٹر ہیں۔

ہفتہ، 31 اکتوبر، 2009

31 October

آج31 اکتوبر ہے۔ امریکن ممالک میں آج کے دن ہیلووین ڈے منانے جاتا ہے۔ اس دن لوگ مختلف قسم کے ماسک لگا کر ایک دوسرے کو ڈراتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں یہ امریکن جانے ۔ لیکن آج دن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ آج ایک شخص کا جنم ہے۔ ویسے سال کے ہر دن کہیں لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح 31 اکتوبر کو کہیں لوگوں کے ساتھ ایک ایسے شخص نے بھی جنم لیا جیسے میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ دبلا پتلا سا کمزور شخص جو بہت حساس طبیعت کو ہے۔ جو اپنی دنیا میں گم ہے۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ ہے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ داڑھی بڑی ہوئی ۔
آپ کو پتا ہے وہ خاموش سا شخص کون ہے۔ نہیں ۔ تو میں بتا دیتا ہوں۔ وہ شخص ہے میرا دوست شور۔
شور کو جنم دن مبارک ہو

غصہ

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ جن کا غصہ ہر وقت ناک پر ہوتا ہے۔ یہ بھی غصے کی ایک قسم ہے۔ لیکن ایسے غصہ سے بہت کم ہی لوگ اثر لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ غصہ وقت بے وقت آنے کی وجہ سے اپنا اثر کھو چکا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا غصہ ، غصہ نہیں کہلاتا۔ ایسے لوگ جب بھی غصہ کرتے ہیں۔ تو باقی لوگ اُسے نارمل سمجھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ کہ یہ تو اُس کی عادت ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ جو کبھی کبھار غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اَن کا غصہ اثر دار ہوتا ہے۔ اور لوگ اُس غصے سے ڈرتے بھی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے غصے کا اظہار تب کرتے ہیں۔ جب کچھ غلط ہو۔ یا کوئی کام اُس شخص کے مزاج کے بر خلاف ہوجائے۔
کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں۔ اور کبھی بھی اِس کا اظہار نہیں کرتے ہے۔ ذرا سوچئے کہ جب ایسے لوگ جس نے کبھی بھی اپنے غصے کا اظہار نہیں کیا ہو۔ جب وہ اپنے غصے کا اظہار کرے گا۔ تو اُس کا غصہ کتنا خوف ناک ہوگا۔ اور یہ بھی سوچئے کہ جب ایسے شخص کا ضبط کا دامن چھوٹ جائے گا۔ تو وہ کس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
ویسے شور یہ سوچ رہا ہے۔ کہ آجکل کے اس ٹینس بھر ماحول میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو اپنے غصے کو کنٹرول کرتا ہوگا۔اور اگر کوئی ایسا ہے تو اُس بندے کو سُرخ سلام۔۔

rabba

کل شور نے ایک نئے فلم کا گانا سنا راحت فتح علی خان کی آواز میں ۔ شور کو پتا نہیں تھا کہ یہ گانا کون سی فلم کا تھا۔ جب یہی گانا دوبارہ ٹی وی پر آیا تو پتا چلا۔ کہ یہ سلمان خان اور کرینہ کپور کی نئی فلم "میں‌اور مسز کھنہ" کا ہے۔ پھر وہی کیا جو شور ہمیشہ کرتا ہے۔ یعنی کہ سیدھے ریڈیو ری لوڈڈ پر گیا ۔ اور اس گانے کو ڈاؤن لوڈ کیا ۔ پھر سننے لگا۔ گنگنا نے لگا۔ آپ بھی سننئے اور گنگنائیے۔

Rabba

شور کا خراب کمپیوٹر

چند دنوں سے شور اپنے بلاگ سے غیر حاضر ہے ۔ پہلے تو یہی سوچا کہ شاید تھک گیا، بلاگ پر بکواس لکھتے لکھتے ۔ لیکن پھر سوچا چلو کچھ حال احوال معلوم کرتے ہیں۔ تو پتا چلا کہ وہ لکھنے سے بے زار نہیں ہوا بلکہ اُس بے چارے کے کمپیوٹر نے اُسے دھوکہ دیا ہے۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے۔ اُس کا کمپیوٹر خراب ہے۔ اُس نے تین چار لوگوں سے مدد مانگی مگر کوئی بھی اُس کے خراب کمپیوٹر کو ٹھیک نہیں کرسکا، شور نے کہیں جگہ ٹیلی فون کرکے دیکھ لیا، لیکن کسی کے سمجھ میں مسئلے کا حل نہ آیا ۔ شور ناچار اپنی مدد آپ کے تحت اُس نے اپنے کمپیوٹر کے مدربورڈ کو کھول کر صاف کیا تو کچھ بہتری کے آثار ہوئے۔ کمپیوٹر ابھی بھی صیحح طور پر کام نہیں کررہا ہے۔ اگر کچھ دنوں کے تک یہ صیحح چلتا رہا تواچھی بات ہے ۔۔۔۔ یہ پوسٹ ایسے ہی لکھ دیا۔

نیند کا مارا

رمضان المبارک کا آدھے سے زیادہ گزر چکا ہے۔ کمپیوٹر کے سامنے اِس پندرہ دنوں میں صرف دو دفعہ بیٹھا۔ ایک بار ایک گھنٹے کے لئے۔ اور پھر کل رات شور نے انٹر نیٹ استعمال کیا تھا۔ ویسے تو شور ہر رات کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کی خواہش کرتارہتا ہے۔ لیکن نیند بھی کیا بلا ہے۔شور کا ایسا سست کردیتا ہے۔ کہ وہ چاہنے کے باوجود سو جاتا ہے۔ اور ویسے بھی ایک شاعر متحرم نے کیا خوب کہا ہے۔

نیند تو درد کے بستر میں بھی آ سکتی ہے
اُس کے آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں

لیکن آخر شور بھی شور ہے۔ نیند سے لڑ کر آج پھر جاگنے کے موڈ میں ہے۔

فرسٹریشن

اس بارے میں زیادہ کچھ کہنے کے موڈ میں شور نہیں ہے۔
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اِس کنارے نوچ لوں، اُس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم ِ دل کیا کروں، اے وحشت ِ دل کیا کروں

کتا

بڑے لوگ اکثر اوقات اپنے شوق، یا ضرورت کے لئے کتے پالتے ہیں۔ وہ کتا اپنے مالک کی ایک اشارے پر دوسروں کو کاٹتا ہے۔ مالک کی طرف اٹھنے والی ہر ہاتھ۔ پیر کو زخمی کردیتا ہے۔ لیکن جب وہی کتا دوسروں کو نقصان پہچانے کے ساتھ اپنے مالک کو بھی زخمی کرنے کی کوشش کرے تو اُس کتے کی ایک دوا ہے۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت

اُمید

کبھی غور کیجئیے تو کسی انسان کی زندگی میں اُمید وہ سہارا ہے جو اُسے کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دیتا ۔ بلےغالب کہئے کہ کوئی اُمید بھر نہیں آتی ۔ لیکن ہر کوئی ایک کے بعد دوسری اُمید کے سہارا جینے لگتا ہے۔ اصل میں یہ اُمید کا عنصر خدا کی طرف سے انسان کے لئے ایک ایسا حالہ ہے جو اُسے ہر دم زندہ رکھتا ہے۔ اور جس کے پاس اُمید کا بھی سہارا ختم ہوجاتا ہے۔ یا وہ ایسا سمجھتا ہے۔ کہ اُس کا ہر اًمید ختم ہوچکا ہے۔ تو وہ شخص خود کشی کر لیتا ہے۔

پاکستانی اسٹیج ڈرامہ دیکھئے

پاکستانی اسٹیج ڈرامے دیکھنے کے لئے اس ویب سائٹ کو چیک کیجئیے۔


http://www.pakistanistage.com/

جمعرات، 29 اکتوبر، 2009

حالات، خیالات

آج رسالے میں ایک دلچسپ جملے پڑھا۔
کسی کے خیالات بدلنا چاہتے ہو تو اُس کے حالات بدلوں۔
کتنا گہرا جملہ ہے۔ اگر کسی انسان کے حالات نہیں بدلیں گے۔ تو وہ بے چارہ اپنے خیالات کیسے تبدیل کرے گا۔ اُس کے خیالات کا سارا دارو مدار اُس کے حالات پر ہے۔ اگر کوئی بھوکا ہے تو اُس کی سوچ روٹی پر اٹکا ہوا ہے۔ اُسے کوئی سیاست ، مذہب ، عشق و محبت، کی لاکھ خوبیاں بتلائے۔ اُس کے لئے سب بے کار ، اُس کا دماغ تب سوچنا شروع کردے گا۔ جب اُس کا بیٹ بھرا ہوگا۔

ناراض

شور کو میں بہت دنوں سے جانتا ہوں ۔ اُس کو جب بھی کوئی بات بُری لگتی ہے ۔ تو وہ کہہ دیتا ہے۔ اور اِس سے دوسرے لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ شور جو کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ غلط نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی لوگ ناراض ہوجاتے ہیں۔ آج شور ناراض ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے آپ سے ناراض ہے۔ میں جانتا ہوں اُس کی ناراضگی کل صبح تک ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ میں شور کو جانتا ہوں۔ کسی سے زیادہ ناراض نہیں ہوسکتا۔

انتظار

کہتے ہیں کہ انتظار کی گھڑی موت کے برابر ہے ۔ ایسا کیوں کہتے ہیں یہ تو شور بلکل نہیں جاتنا۔ لیکن آج انتظار کا مزہ شور اچھی طرح لے رہا ہے۔ اُس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اِس طرح کسی کا انتظار کرے گا۔ کسی کا انتظار کرنا واقعی بہت مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقت رکھ سا گیا ہے۔ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔انتظار کتنا تکلیف دیتا ہے اس کا پتا آج شور کو بہت اچھی طرح ہورہا ہے۔بے چارہ شور۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔

log


ایک کوشش

خوشی

کبھی کبھار کچھ خوشیاں ہم سے روٹ جاتے ہیں تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمیں پتا نہیں کہ اللہ تعالٰی نے اِس چھوٹی خوشی کے بدلے ہمارے لئے کسی بڑی خوشی کا اہتمام کررکھا ہے۔ آج شور کو بات کا پورا احساس ہورہا ہے۔

بچے کے ہنسی


اگر دیکھنا چاہتے ہو تو کسی بچے کی ہنسی دیکھو ۔ ایک شفاف ہنسی جس میں ذرا بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ جو خالص ہے۔ شبنم کے بوند کے طرح۔ جو پاک ہے۔ کسی فرشتے کی طرح ۔ کسی بچے کی ہنسی میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہے ۔ جھوٹ تو تب شامل ہوتا جب بچہ عقل اور شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ اگر عقل و شعور ہمیں انسان بنا نے میں مدد دیتے ہیں لیکن ہم سے بہت کچھ چین لیتے ہیں۔

برے ہو کہ اچھے

اگر کوئی اچھا ہے تو معاشرے کو اُس سے کوئی تکلیف نہیں ۔ لیکن معاشرہ اُس کے لئے تکلیف کا باعث ضرور بنتا ہے۔ اور اگر وہ فرد بُرا ہے تو معاشرے کو اُس سے تکلیف ہے۔ اور معاشرہ ایسے شخص کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتا ہے۔ یہ شور کی بکواس نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔

گانے کے دو بول جودل کو چھو گئے

کل شور اپنے موبائل فون سے گانے سن رہا تھا، لتا منگیشکر کی آواز میں سادگی البم سے ۔ جس میں ایک گانے کے دو لائنیں نے شور کو بے چین کردیا، اور سارا دن اُن دونوں بولوں کو گنگنا تا رہا۔

میں سمندر ہوں خاموشی میری مجبوری ہے
دے سکو، تو کسی طوفان کے حوالے مجھے

شور کی سستی

آپ نے کہیں لوگوں کو دیکھا ہوگا جو بے حد سست ہیں۔ لیکن اگر آپ کی ملاقات شور سے ہوجائے تو یقین جانئے کہ دنیا کے سارے سست لوگوں کوآپ بھول جائیں گے۔ بلا یہ بھی کوئی بات ہوئی ذرا گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ بجلی غائب ہوئی ۔ تو شور نے سستی شروع کردی ۔ بلاگ پر لکھنے کے لئے وقت نہیں ہے کا بہانہ کرنے لگا۔ میں ہوتا تو شور کو اِس بلاگنگ کی اسکول سے نکال دیتا ۔ لیکن آپ ہیں کہ کہئے جارہے ہیں کہ ایک موقع اور دے دو۔ چلادے دیا ایک موقع اور۔
اچھا خدا حافظ پھر انشاءاللہ جلدی ملنےکا اردہ ہے۔

shor in flickr

کچرے کی صفائی

ایک شخص کی عادت تھی جب بھی وہ کمرے کی صفائی کرتا، کچرا کمرے کے باہر پھینکنے کے بجائے ، قالین کے نیچے چھپا دیتا۔ کچھ مدت کے بعد قالین کے نیچے دبا ہوا کچرا اُس کے لئے پریشانی کا باعث بنا۔

شور کی مثال بھی اُس شخص کی ہے۔ اُس کے کمپیوٹرمیں ہر دن کچھ نہ کچھ کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔ لیکن شور نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا، اور نا ہی صیحح وقت پر اُسے ٹھکانے لگانے کا کبھی سوچا۔ اب وہ کچرا اُس کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ تین چار دن سے وہ اُسے ٹھکانے لگانے میں لگا ہوا ہے۔ کچھ کچرا ذرا کار آمد سا ہے۔(شور کا کچرا سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے) ۔اُسے جلاکر کے سی ڈیز میں محفوظ کرنے میں لگا ہوا ہے۔۔ یہاں ایک اور پریشانی ۔ کارآمد کچرا بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا۔ پہلے کچرے کو ترتیب سے رکھنا تھا۔ پھر اُسے جلا کر محفوظ کرنے میں شور کا بہت وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اگر وہ شروع دن سے سارا کچرا ترتیب سے رکھنے کی عادت ڈالتا تو آج اُس کا بہت سارا وقت بچ جاتا ۔لیکن شور کی تو عادت تھی ۔ ہر کام طریقہ سے کرتا۔ معلوم ہوا کہ یہاں کچرے کے بے ترتیبی میں شور سے زیادہ شور کے چھوٹے بھائی کا ہاتھ ہے۔ وہ جب بھی کمپیوٹر پر قبضہ کرتا۔ کسی نہ کسی چیز کو اُس کی جگہ سے اِدھر اُدھر ہوجانا لازمی بات ہے۔ شور اُسے کچھ کہتا تو کچھ دن ناراضگی ۔۔۔۔ جب ناراضگی ختم تو پھر وہی قبضہ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ وہی بے ترتیبی ۔ ۔ ۔ ۔ وہی شور کی باتیں۔ ۔ ۔ ۔اب شور کرے بھی تو کیا یہی نا کہ وہ اُس بے ترتیب کچرے تو ترتیب سے رکھے پھر جلا کر محفوظ کرلے۔ وہی تو کررہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شور کا غصہ

شور آج اپنے غصے کی وجہ بہت پریشان ہے۔آج کل اُس کا غصہ بہت بڑھ گیاہے۔ وہ بات بات پر غصہ دیکھا رہا ہے۔ وہ اپنے غصے پر بہت کوشش کرتا ہے، کہ کنٹرول کرسکے، لیکن اُس سے کنٹرول نہیں ہو پارہا ہے۔ پہلے کے منہ سے جب بھی کوئی سخت بات نکل جاتی ہے۔ تو پریشان ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگتا ہے۔ اُس کے سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کرے۔ کس طرح اپنے غصے کو کنٹرول کرے ۔ آپ ہی اُسے کچھ مشورہ دیجئے۔ میں تو تھک گیا ۔ مشورہ دیتے دیتے۔

سایے جیسے لوگ

کچھ لوگ سایے کی طرح ہوتے ہیں ۔ جس طرح انسان سایے کے آگے چلتا ہے تو سایہ اُس کے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ اور انسان سایے کے پیچھے چلنا شروع کردے تو سایہ اُس کے آگے چلنے لگتاہے۔ ایسا لوگ ہمیشہ تنہا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگوں کے ساتھ چلنا پسند نہیں کرتے ۔ اور لوگوں کو بھی اِن کے آگے پیچھے چلنے کو زیادہ شوق نہیں ہوتا ہے۔
۔

بدھ، 28 اکتوبر، 2009

بلاگ پر حاضری

اس بار مہینے کے آخر میں شور بے حد مصروف تھا۔اور اس بار مصروفیت کا یہ پیریڈ بہت زیادہ لمبا ہوگیا۔ عموماً مہینے کے آخر میں شور کچھ مصروف ہوتا ہے۔ لیکن اتنا نہیں جیسا کہ اس بار ہوا تھا ۔ شور کو اتنی بھی فرصت بھی نہ ملی کہ وہ اپنے بلاگ پر حاضری دے سکے ۔آج وہ فارغ ہے۔ تمام کام ختم کرنے کے بعد فارغ ہوگیا کمپیوٹر کے آگے بیٹھ گیا۔ اور اپنے بلاگ پر اپنی حاضری لگا رہا ہے۔

تنہا شخص

آج شور ایک شخص کے وجہ سے بہت اداس ہے۔ اُس کی حال پرافسوس کرنےکو دل چاہ رہا ہے۔ وہ شخص کا وقت جب اچھا تھا تو اُسے لوگوں کی محفل سے فرصت نہیں تھی۔ ہر جگہ اُس شخص کا ذکر، ہرایک کی زبان پر اُس کا نام ۔ آج جب اُس شخص کے پاس کچھ نہیں اور اُس کا پاس سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ تو لوگوں نے اُس کے پاس آنا چھوڑ دیا ہے۔ آج وہ بلکل تنہا ہے۔ شور کو اُس کا حال دیکھ کر بہت دکھ ہورہا ہے۔ آج وہ تنہا بیٹھ کر اپنے اچھے دونوں کو یاد کررہا ہے۔
عروج کا سفر بہت اچھا اور لاجواب ہوتا ہے جیسے جیسے یہ سفر جارہی رہتا ہے۔ انسان کا قد اونچا ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جونہی یہ سفرکی زوال کی جانب شروع ہوتا ہے ۔ انسان کی جان نکال دیتا ہے۔

جاہل اور بحث

آج ایک صاحب نے گفتگو کے دوران ایک غلط بات کہہ دی۔ شور نے اُس کی غلطی کی نشاندہی کردی۔ تو وہ صاحب شور سے اُلجھنے لگے اور بار بار کہنے لگے کہ میں صیحح ہوں اور تم غلط ہو۔ وہ اپنی غلطی کو درست ثابت کرنے کے لئے قسم قسم کے دلائل دے رہے تھے۔اور وہ شور کو مجبور کررہاتھا کہ وہ اُس کی غلطی کو صیحح تسلیم کرے۔ شور نے کچھ دیر تک تو اُسے سمجھانے کی کوشش کی ۔ پھر اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔ کیونکہ

جاہل کے ساتھ بحث مت کرو، کیونکہ لوگوں کو دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔

دوسروں کے بارے میں غلط فہمی

کل شور ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے پیچھے کچھ لوگوں بیٹھےہوئے تھے۔ وہ سب ایک شخص کے خلاف باتیں کررہے تھے۔ کہ بس وہی ایک شخص ہے جو رکاوٹ ہے۔ باقی لوگ راضی ہیں آج بھی اُس شخص نے اجازت نہ دی ورنہ ہمارا کام آسانی سے ہو جاتا۔حالانکہ شور اُس وقت اُس شخص کے پاس موجود تھا۔ جب وہ لوگ اجازت لینے آئے تھے ۔ کسی اور نے اُنھیں منع کیا تھا۔ وہ شخص جس کے خلاف یہ باتیں کررہے تھے۔ وہ بلکل خاموش تھا۔ اجازت دینے یا اجازت نہ دینے میں وہ بلکل لاتعلق تھا۔ لیکن پھر بھی لوگ اُس کے خلاف باتیں کررہے تھے۔
کچھ لوگ خواہ مخواہ دوسرے لوگوں کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور وہ اُس کے خلاف باتیں کررہتے ہیں۔ خود تو وہ بدگماں ہوتے ہیں ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی بدگماں کرتے ہیں۔

مختصر بااثر

دنیا میں کہیں لوگ ایسے ہیں جن کی باتوں سے لوگ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اُن کی لکھی ہوئی باتوں سے لوگوں کو نئے راستے ملتے ہیں۔ جن پر چل کر لوگ اپنی منزل پالیتے ہیں۔اِن بڑھے لوگوں کی اچھے اور دانا قولوں کے لئے شور نے "مختصر" زمرہ رکھا ہے۔ اور اس زمرے کی ابتداء اس فرمان سے شور کرتا ہے۔

جو انسان نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی کرتا ہے خدا اس سے بے نیاز ہے۔

(قرآن پاک)

اک فرد کی غلطی ۔ پورے خاندان کی بُرائی

ایک جگہ ایک خاندان کے چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔اس جگہ اک دوسرے خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص آگیا۔سب لوگ اک مجرم کے بارے میں بات کررہے تھے۔نئے آنے والے شخص کو پتا نہیں تھا کہ مجرم کون ہے۔
اُس نے طنزیہ لہجے میں باقی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ضرور مجرم کا تعلق اِس خاندان سے ہوگا۔
تو ایک نے جواب میں دیا۔ نہیں اُس مجرم کا تعلق آپ کے خاندان سے ہے۔
تو آس شخص کا سر شرم سے جھک گیا۔
کچھ لوگ اک فرد کی غلطی یا جرم کی وجہ سے اُس کے پورے خاندان کو بُرا کہتے ہیں۔ حالانکہ جرم ایک فرد نے کیا ہے اُس کے پورے خاندان نے نہیں لیکن پھر بھی لوگ اُس فرد کے ساتھ اُس کے پورے خاندان کو بُرا کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی فرد اچھا کام کرے تو لوگ اُسے ہی صرف اچھا کہتے ہیں۔ اُس کے خاندان والوں کو بیچ میں نہیں لاتے۔

وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں

یہ خوبصورت غزل شور کو کسی نے سنایا تھا۔ آج شور اِس کو آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کررہا ہے۔

وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتہ نہیں

شدت کی دھوپ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں نظر سے گرا نہیں

آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی تھے ہم کو کسی نے جیا نہیں

جس کی مخالفت ہوئی مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں

تاریکوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں

کس نے جلائیں بستیاں، بازار کیوں لٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں

بشیر بدر

پہلی تاریخ

ایک نوکری پیشہ انسان کی حالت بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ سارا دن کیلینڈر کو تکتا رہتا ہے۔ کہ کب پہلی تاریخ ہو اور تنخواہ ملے۔ اکثر اوقات تواُس کی تنخواہ اُسے ملنے سے پہلے ہی خرچ ہوچکا ہوتا ہے۔ تنخواہ ملنے کے تین چار دن بعدپھر وہی پہلی تاریخ کا انتظار ۔ یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ ملازم ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔اُس کے کان ہر وقت اس بات کے منتظر ہوتے ہیں۔کہ کب تنخواہ میں اضافے کی کوئی خبر آئے۔ کب کوئی بونس ملے۔
اگر ایک ملازم سارا دن معاشی پریشانیوں میں اُلجھا ہوا ہو۔تو وہ صیحح طور پر کام کیسے کرے گا۔ معاشی پریشانی کو ختم کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے ، اُس کی تنخواہ اتنی کردی جائے،کہ وہ آسانی سے اپنا گزارہ کرسکے، جب وہ ملازم معاشی طور پر پرسکون ہوگا۔ تو کام بھی دل لگا کر کرے گا۔ اس طرح اُس کی کارکردگی بہترین ہوگی۔ اور ادارے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔اور ممکن اس طرح وہ ملازم اپنی معاشی پریشانیاں دور کرنے کے لئے غلط راستہ ، جیسے چوری رشوت وغیرہ سے خود کو دور رکھے گا۔

پہلی تاریخ

ایک نوکری پیشہ انسان کی حالت بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ سارا دن کیلینڈر کو تکتا رہتا ہے۔ کہ کب پہلی تاریخ ہو اور تنخواہ ملے۔ اکثر اوقات تواُس کی تنخواہ اُسے ملنے سے پہلے ہی خرچ ہوچکا ہوتا ہے۔ تنخواہ ملنے کے تین چار دن بعدپھر وہی پہلی تاریخ کا انتظار ۔ یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ ملازم ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔اُس کے کان ہر وقت اس بات کے منتظر ہوتے ہیں۔کہ کب تنخواہ میں اضافے کی کوئی خبر آئے۔ کب کوئی بونس ملے۔
اگر ایک ملازم سارا دن معاشی پریشانیوں میں اُلجھا ہوا ہو۔تو وہ صیحح طور پر کام کیسے کرے گا۔ معاشی پریشانی کو ختم کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے ، اُس کی تنخواہ اتنی کردی جائے،کہ وہ آسانی سے اپنا گزارہ کرسکے، جب وہ ملازم معاشی طور پر پرسکون ہوگا۔ تو کام بھی دل لگا کر کرے گا۔ اس طرح اُس کی کارکردگی بہترین ہوگی۔ اور ادارے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔اور ممکن اس طرح وہ ملازم اپنی معاشی پریشانیاں دور کرنے کے لئے غلط راستہ ، جیسے چوری رشوت وغیرہ سے خود کو دور رکھے گا۔

crazyimages

اس ویب سائٹ کو دیکھئے ، اس کے تصویریں واقعی ہی بہت کریزی ہیں۔ شورکو تو یہی لگتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے۔

crazyimages

منگل، 27 اکتوبر، 2009

روز تار کٹنے سے۔۔۔۔۔۔۔

دو تین سے شور کو بجلی نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ کبھی حاضر کبھی غائب ادھر شور کمپیوٹر کے آگے بیٹھے اُدھر بجلی غائب ۔ لگتا ہے بجلی اور شور کی کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہے۔جب بھی بجلی چلی جاتی ہے شور کو بشیر بدر کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔۔ لگتا ہے بجلی اور شور کی کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہے۔جب بھی بجلی چلی جاتی ہے شور کو بشیر بدر کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔

روز تار کٹنے سے رات کے سمندرمیں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لئے ضروری ہے اک دیا جلا کر تم دل کے پاس رکھ دو

اپنی غلطی

اپنی غلطی پر اگر کوئی آپ کو کچھ کہے تو اُس بات کو دل پر مت لے لو، کیونکہ وہ آپ کو اس لئے کچھ کہہ رہا ہے۔ کیونکہ آپ نے غلطی کی ہے۔ یہ آپ کی اصلاح کرنے کے لئے کہا گیا۔اور یہ ایک اچھی بات ہے اس سے آپ میں بہتری بھی آجائے گی۔

دلچسپ ویڈیو


انسان ہر وقت سنجیدہ رہے ۔ رنجیدہ رنجیدہ باتیں کرے، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ چلو آج شور آپ کو ایک مزاحیہ ویڈیو دیکھتا ہے۔





Ice Age 2 - The best video clips are right here

پیر، 26 اکتوبر، 2009

اردو اشعار

شاعر شعر کیوں لکھتے ہیں؟ اس جواب اک شاعر ہی دے سکتا ہے۔ لیکن شاعر کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ صرف چند مصرعوں میں وہ پوری بات کہہ دیتے ہیں۔
شاعر اپنے خیالات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم اُس خیال میں اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ اشعار بہت پسند آتے ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے۔ جیسے یہ ہماری دل کی آواز تھی جو شاعر بیان کی ہے۔ شور کو بھی یہ اشعار بھی اپنے اپنے لگے۔

تجھ کو تنہا کر گیا منفر رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا

فلم کا اثر

آج ٹی وی پر فلم"تارے زمین پر"دیکھایا جارہا تھا۔ فلم بہت بہترین تھا۔ اس فلم میں ایک ایسے بچے کی کہانی بیان کی گئی تھی۔جو پڑھائی میں مشکلات کا شکار ہے۔فلموں کے مرکزی کرداروں میں عامر خان اور بچے کے کردار میں درشیل سفاری متاثر کن کام کیا ہے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد شور کے خاندان کے کہیں لوگ یہ کہہ رہے تھے ۔ ہمارا بچہ اسپیشل ہے، کوئی کہہ رہا ہے میرے بچی کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ۔ جیسا اُس بچے(فلم والے) کے ساتھ تھا۔ شور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اب شور یہ سوچ رہا ہے کہ لوگ فلموں سے کتنے متاثر ہیں۔اگر یہ فلم نہ بنتی تو وہ لوگ جو اپنے بچوں کو آج اسپیشل کہہ رہے ہیں۔ نالائق کہہ رہے ہوتے۔یہ صرف شور کے خاندان کی بات نہیں ہے ملک میں اور بھی کہیں ایسے خاندان آپ کو ملیں گے۔ جو یہی کہہ رہے ہونگے۔ شور کو اس بات کا انتظار ہے کہ عامرخان کی نئی فلم " گنجی "دیکھنے کے بعد لوگوں میں یہ مرض بھی نمودار نہ ہوجائے ۔ کہ"تمہیں پتا ہے کہ فلاں کے بیٹے کو صرف پانچ منٹ یاد رہتا ہے ۔ اس کے بعد وہ بھول جاتا ہے۔"او میرے خدا٫ ٫ ٫

ایک چہرہ

آج شور تھکا ہوا، اپنے کام سے لوٹ رہا تھا۔ بہت پریشان تھا۔ اپنے آپ سے الجھا ہوا تھا۔ ایک موڈ پر ایک چہرہ اُسے دیکھائی دیا۔ اُس چہرے کو دیکھنے کے بعد شور کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ وہ دوبارہ ترو تازہ ہوگیا ۔اُس چہرے کا بہت شکریہ جس کی وجہ سے شور اپنی پریشانیاں بھول گیا۔اگر آج یہ چہرہ شور نہیں دیکھتا تو شاید پورا دن پریشان رہتا

اتوار، 25 اکتوبر، 2009

اچھے لوگ بُرے ہیں

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے جو صرف اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسروں کا کام بڑی مشکل سے تیار ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو صرف دوسروں کاکام کرنے میں ہی خوش رہتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہما وقت اس کوشش میں رہتے ہیں دوسرا کا کام پہلے ہو۔ بلے اس کی وجہ سے اُس کا اپنا کام رہ جائے۔ پہلے زمانہ میں ایسے بہت اچھے سمجھے جاتے تھے ایسے لوگوں کی بہت عزّت تھی ۔ لیکن آج کل کے اِس جدید دور میں ایسے لوگوں کولوگ بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں سے دوسرے لوگ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ حقیقت میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن شور کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں۔کیوں ؟ کیونکہ شور خود بھی اسی فطرت کا مالک ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کہیں دفعہ نقصان اُٹھا چکا ہے۔

borahiun per fakhar

انسان اپنے اچھائیوں پر فخر کرتا ہے۔ فخر کرنابھی چاہئیے کیونکہ یہ فخر کرنے کی بات ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو بڑے فخر کے ساتھ اپنی بُرائیاں بیان کرتے ہیں۔ بیان کرتے وقت اُن کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہیں ہوتا۔ اخلاقی پستی شاید ایسی کا نام ہے۔ اور یہی سے ساری خرابیاں جنم لیتے ہیں۔


Aaina mujhse meri pehli si sorat mange


آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے(مکرّر)
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

میں بھٹکتا ہی رہا درد کے ویرانے میں
وقت لکھتا رہا چہرے پہ یہ ہرپل کا حساب
میری شہرت میری دیوانگی کی نظر ہوئی
پی گئی مئے کی بوتل میری گیتوں کی کتاب
آج لوٹا ہوں تو ہنسنے کی ادا بھول گیا
یہ شہر بھولا مجھے میں بھی اِسے بھول گیا
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

میرافن پھر مجھے بازار میں لے آیا ہے
یہ وہ جاہ ہے کہ جہاں مہر و وفابکتے ہیں
باپ بکتے ہیں اور لختِ جگر بکتے ہیں
کوکھ بکتی ہے دل بکتے ہیں سر بکتے ہیں
اس بدلتی ہوئی دنیا کا خدا کوئی نہیں
سستے داموں میں ہر روز خدا بکتے ہیں
بکتے ہیں بکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

ہر خریدار کو بازار میں بکتا پایا
ہم کیا پائیں گے کسی نے یہاں کیا پایا
میرے احساس میرے پھول کہیں اور چلیں
بول پوجا میری بچی کہیں اور چلیں
اور چلیں اور چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

shor ki ibteda

عموماً لوگوں کو شور شرابہ پسند نہیں۔ لیکن کچھ شور ایسے ہوتے ہیں۔ جو انسان کے اندر ہوتے ہیں۔ یہ شور انسان کو آرام سے بیٹھنےنہیں دیتا۔ لوگ اکثر اس شور کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔یا زیادہ سے زیادہ کسی کو سنا دیتے ہیں۔ یا میری طرح کسی کاغذ کے حوالے کردیتے ہیں۔کاغذ کے حوالے کرنے کے بعد وہ شور دب توجاتاہے۔لیکن بے کار ہوجاتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس شور کو سنئیں میرے آس پاس کہیں لوگ ہیں۔ کہیں ایسے ہیں جو اس قابل ہیں کہ انہیں یہ شور سنایا جائے ۔لیکن وہ لوگ اس شور سے زیادہ شور کرنے والے کو دیکھیں گیں۔ سنئیں۔ جو مجھے پسند نہیں۔ اب کچھ لوگوں کی مہربانی سے اک جگہ کے بارے میں پتا چلا ہے۔جہاں لوگ اپنا شور دوسروں کو سناتے ہیں۔ تو یہی لگا کہ یہی سب سے بہترین جگہ ہے۔ شور کرنے کا، شور سنانے کا ، شور کو سمجھنے کا۔ تو میں ہمت کرکے شور کی ابتداء کرتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ لوگ کہاں تک یہ شور سننتے ہیں۔

about shorblog

بارے میں
یہاں چند باتوں کے بارے میں، شور عرض کرنا چاہتا ہے۔
شور کے بارے میں
آپ اپنے ادھر گرد نظر دوڑائیں تو کہیں لوگ آپ کو بلکل خاموش سے نظر آئیں گے۔ اِن خاموش لوگوں کی خاموشی میں بہت سارا شور چھپا ہوا ہے ۔ اِس شور کو بس محسوس کرنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اِن خاموش لوگوں کے بارے میں اکثر لوگ کہتے ہیں۔ کہ اِن کے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے۔ اس شور کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگر شور منہ میں زبان نہیں رکھتا تو کیا ہوا۔ انگلیوں میں ہمت تو ہے۔ یہ شور دراصل اُس خاموشی کا شور ہے۔ جو باہر نکلنے کے انتظار میں ہے۔ خاموش لوگ مجبور ہوکر ہی شور کرتے ہیں۔ اگر یہ شور بھی نہ کریں تو کیا کریں۔ بقول اک شاعر

کےنہ کرتے شور شرابہ تو اور کیا کرتے
تمہارے شہر میں کچھ اور کام کاج بھی ہو

بلاگ کے بارے میں
اِس بلاگ میں آپ کو کچھ شور کا شور پڑھنے کو ملے گا۔ کچھ گیت اور غزلوں کے ویڈیو ، آڈیو، اور ساتھ ساتھ اِن کے شاعری بھی پڑھنے کو مل جائے گا۔ کچھ لوگوں کا شور ہوگا۔ شاید کچھ سیاست کا شور بھی ہو۔ کچھ پسندیدہ اشعار ، جملے ، تصویریں ، اور کچھ دلچسپ خبریں کے علاوہ کچھ دلچسپ ویڈیو بھی یہاں شور نے پوسٹ کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہاں شور اور میں کچھ گپ شپ بھی کریں۔ شور نے یہ سب ارادے رکھتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہے کہ اِن ارادوں کو کامیاب بنائے۔ آمین ثم آمین
میرے بارے میں
میں کون ہوں اور شور سے میرا کیا تعلق ہے۔ یہ سوال اک بار شور نے مجھے سے پوچھا کہ بول تُو کون ہے ۔ تو میں نے حاجزی سے جواب دیا کہ یہ آپ کی جگہ ہے ۔ آپ اس جگہ کے مالک ہیں ۔ میں آپ کا غلام ہوں لوگ مالک کے متعلق زیادہ جاننا چاہتے ہیں ۔ بنسبت کسی غلام کے۔ اِس لئے اِس غلام کو غلام ہی رہنے دیجئیے ۔رابطہ کے بارے میں
شور کے حکم سے میں نے سب کچھ آپ کو بتا دیا۔ اور شور کہتا ہے کہ اگر آپ مزید شور کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں اور شور میں کچھ کامن ہے تو درج ذیل ای میل ایڈریس پر شور سے رابطہ کیجئیے۔
Shor001{at}gmail.com