پیر، 2 اگست، 2010
circus ka shear
یہ دنیا اب ہمیں سرکس کا شیر کردے گی
اِس شعر کو نظروں کے سامنے گزے دو تین سال ہو چکیں ہیں۔ لیکن آج بھی ذہن پہ یہ اٹکا ہوا ہے۔ چلو اِس کو بلاگ کے حوالے کرکے دیکھتے ہیں شاید یہ ذہن سے نکل جائے۔
بدھ، 30 دسمبر، 2009
ehsas
آج پھر بشیر بدر کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
اُس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد، میرے آنکھ میں آنسو آئے
اُس نے بہت بُرا کیا نا۔
بدھ، 28 اکتوبر، 2009
وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتہ نہیں
شدت کی دھوپ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں نظر سے گرا نہیں
آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی تھے ہم کو کسی نے جیا نہیں
جس کی مخالفت ہوئی مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں
تاریکوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں
کس نے جلائیں بستیاں، بازار کیوں لٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں
بشیر بدر
منگل، 27 اکتوبر، 2009
روز تار کٹنے سے۔۔۔۔۔۔۔
روز تار کٹنے سے رات کے سمندرمیں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لئے ضروری ہے اک دیا جلا کر تم دل کے پاس رکھ دو
پیر، 26 اکتوبر، 2009
اردو اشعار
شاعر شعر کیوں لکھتے ہیں؟ اس جواب اک شاعر ہی دے سکتا ہے۔ لیکن شاعر کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ صرف چند مصرعوں میں وہ پوری بات کہہ دیتے ہیں۔
شاعر اپنے خیالات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم اُس خیال میں اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ اشعار بہت پسند آتے ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے۔ جیسے یہ ہماری دل کی آواز تھی جو شاعر بیان کی ہے۔ شور کو بھی یہ اشعار بھی اپنے اپنے لگے۔
تجھ کو تنہا کر گیا منفر رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا