صفحات

جمعرات، 28 جنوری، 2010

social networking site

انٹر نیٹ پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ۔ یہی سمجھ میں آتا ہے کہ موجودہ دور کا انسان خود کو کچھ زیادہ ہی تنہا محسوس کرنے لگا ہے۔ آج کے دور میں جو بھی انٹر نیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ اِن میں اکثریت ایسے ہیں جو صرف اور صرف نئے دوست بنانے، یا پرانے دوستوں سے بات کرنے کے لئے کسی نہ کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ اک آسان سا سوال ۔۔ اور اِس آسان سے سوال کا شور کے پاس سیدھا سا جواب ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جن کے آس پاس تو لوگوں کی بھیڑ ہے۔ لیکن اُس بھیڑ میں اُنھیں ایسا کوئی بھی نظر نہیں آتا جن سے یہ لوگ اپنی دل کی بات کرسکیں۔ اُنھیں کچھ سنا سکیں ۔ اُن سے کچھ سن سکیں۔ اُنھیں اپنے گھر،رشتے داروں اور دوستوں میں وہ کردار نظر نہیں آتا جن سے وہ اپنی خیالات شیئر کر سکیں۔ اِس کی اک وجہ تو ٹیکنالوجی کی وہ سہولتیں ہیں۔ جس نے انسان کی سوشل لائف کو بگاڑ دیا ہے۔ ٹی وی ، موبائل ، انٹرنیٹ کا یہ دورانسان کو اپنوں سے کتنا دور کئے ہوئے ہیں اس بات کا احساس اُسے تب ہوگا۔ جب اک دن کے لئے اُس سے یہ سہولتیں اچانک واپس لے لی جائیں۔

بدھ، 27 جنوری، 2010

SMSOye

شور کا ایک اور قول ہے۔
نئے راہوں پہ چلو، اپنے لئے نئے رستے ڈھونڈنے کی جستجو رکہو، اِس سے تمہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
چند دن پہلے فیس بک پر اک سائٹ کے بارے میں پتا چلا۔ اس سائٹ میں رجسٹر ممبر اپنے پسندیدہ ایس ایم ایس بھیج سکتے ہیں۔ رجسٹریشن کا طریقہ بھی بہت سیدھا ہے۔ اپنے پیغام بھیجنے کے لئے اپنے کمپیوٹر کے علاوہ موبائل فون کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ ہر ایس ایم ایس پر آپ کو پانچ پوائنٹ ملتے ہیں۔ اور اک دن میں زیادہ سے زیادہ بیس ایس ایم ایس کرنے کی اجازت ہے۔ موبائل فون سے ایس ایم ایس کرنے کے لئے
@CategoryName <space> Your message 03123696969
یا
@CategoryID <space> Your message 03123696969
یہ طریقہ کچھ ابتداء میں شور کے سمجھ میں نہیں آیا۔ تین چار دفعہ ریجکٹ بھی ہوئے۔ لیکن شور نے ہار نہیں مانا۔ آخر کار وہ کامیاب ہوگیا۔ اُس نے @ لے بعد لکھا "اردو پوئٹری" اور اسپیس دے کر بھیج دیا۔ اوپر والے موبائل نمبر پر، کچھ دیر کے بعد رپلائی ہوا "کہ آپ کو میسج کامیابی سے ایڈ ہوگیا ہے۔آپ کو پانچ پوائنٹ ملتے ہیں۔ اور آپ کا رینک ہے عام لڑکا"۔
شور ابھی تک 40 پوائنٹ کما چکا ہے اُس رینک ابھی تک "عام لڑکا" ہے۔
اُس سائٹ کا نام یہ ہے۔

http://www.smsoye.com/

بدھ، 20 جنوری، 2010

Ghulami

موجودہ معاشرے میں دو طرح کے غلام ہوتے ہیں۔ کچھ جسمانی طور پر اور کچھ ذہنی طور پر۔ جسمانی طور پر جو لوگ غلام ہوتے ہیں۔ وہ تو مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن مجبور ہوتے ہوئے وہ باشعور بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ شعور ہوتا ہے۔ کہ وہ غلام ہیں۔ اِس لئے وہ اپنے آپ کو غلامی سے نجات دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ غلامی سے خود کو آزاد بھی کرتے ہیں۔
لیکن وہ لوگ جو ذہینی طور پر غلام ہیں۔ اُن کی حالت قابلِ رحم ہے۔ قابل ِرحم اِس لئے کیونکہ وہ خود کو غلام نہیں سمجھتے ۔ جب کہ وہ خود کو غلام ہی نہیں سمجھتے اِس لئے اُن کے دماغ میں کبھی بھی آزاد ہونے کا خیال ہی نہیں آتا۔ کبھی کبھار تو وہ لوگ اپنی غلامی پر فکر بھی کرتے ہیں۔ اِسے لوگ ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ ہاں اُن غلامی کی کیٹیگری میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ لیکن وہ غلام ہوتے ہیں۔

adami ki qismain

آدمی تین قسم کے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جن کی ہر وقت ضرورت ہے۔بعض کی مثال دوا کے ہیں۔ کہ خاص وقتوں میں اُنکی ضرورت پڑتی ہے۔ اور بعض تو ایسے ہیں کہ بیماری کی طرح کسی بھی حال میں پسند نہیں۔

(مامون الرشید)

اتوار، 17 جنوری، 2010

Ahmed Faraz ki Ek Ghazal

آج شور اپنے کمپیوٹر میں محفوظ شاعری پڑھنے کے موڈ میں تھا۔ اُسے احمد فراز کی ایک خوبصورت غزل نظر آیا ہے۔ ویسے بھی موبائل والوں اور خاص طور پر ایس ایم ایس کرنے والوں نے فراز کے نام کو اتنا بدنام کردیا ہے۔ کہ لوگ بھول گئے ہیں فراز کی اصل شاعری کا کیا رنگ ہے۔ اور کس مزاج کا فراز شاعر ہے۔ شور کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ کوئی بکواس ایس ایم ایس پہ فراز کا نام آتا ہے۔
پتا نہیں کس چیز کا بدلا یہ لوگ فراز کے ساتھ لے رہے ہیں۔ اچھا تو وہ غزل پڑھئے جو آج پورا دن شور کے دماغ میں گردش کرتا رہا۔

غزل
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کا مسافر تو

مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں
ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو

میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی
میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو

ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے
یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو

فضا اداس ہے، رت مضمحل ہے میں چپ ہوں
جو ہوسکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو

فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زَر اور صرف شاعر تو

جمعرات، 14 جنوری، 2010

Internet Explorer Them,

کل سے شور پریشان تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وجہ بلاگ کا تھیم بیمار۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ تبصرے کا لنک غائب۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شور نے سوچا خرابی تھیم میں ہے۔ کیونکہ شور نے تھیم کے ساتھ کچھ چھیڑ خانی کی تھی۔ شور کو یہ تھیم بہت پسند تھا۔ وجہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھیم انٹرنیٹ ایکسپلورر میں بھی اچھی طرح دیکھائی دیتا ہے۔ شور نے تھیم کے ویب سائٹ پر چیک کیا تو پتا چلا کہ تھیم کا نیا ورژن بھی رکھا ہوا ہے۔ ایک تھیم تبدیل کیا۔ اُس تھیم نے شور کو سوچ میں ڈال دیا۔ کس سوچ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوچ یہ کہ پریویو میں پوسٹ پر لکھا ہوا تھا۔ تبصرہ بند ہے۔ شور نے تبصرہ کا لنک چیک کیا تو واقعی بند تھا۔ شور نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنا پرانا تھیم ایکٹیو کیا۔ اور تبصرے کے لنک کو اجازت دی تو تبصرے کا لنک نظر آ گیا۔ اب شور کے سمجھ میں آ گیا کہ کل سے شور جس بات کے لئے پریشان تھا۔ وہ پریشانی بے وجہ تھی۔ تھیم میں کوئی خرابی نہیں تھا۔ بلکہ شور نے غلطی سے تبصرے کو بند کررکھا تھا۔ اوریہی سوچتا رہا۔ کہ تھیم خراب ہے۔ شور بھی نا کتنا بے وقوف ہے۔

بدھ، 13 جنوری، 2010

shor in facebook

شور کا قول ہے۔
جو پروگرام سمجھ میں نہ آئے۔ اُس کو دل لگا کر سمجھنے کی کوشش کرو۔
شور اپنے قول کا پابند ہے۔ اِسی لئے وہ آج کل فیس بک کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑا ہوا ہے ۔ اگر موسم سرد نہ ہوتا تو وہ نہا دھو کر فیس بک کے پیچھے لگ جاتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ سخت سردی ہے اسی لئے صرف ہاتھ دھوکر فیس بک کے پیچھے پڑ گیا۔شور کو فیس بک کے بارے میں سنا تو تھا کچھ دوستوں نے اِس کی بڑی تعریف بھی کی تھی۔ مگر شور نے فیس بک کے ساتھ زیادہ چیڑخانی نہیں کی تھی۔ ویسے اگر شور یہ اعتراف کرلے کے اُسے فیس بک کا زیادہ سمجھ میں نہیں آیا تو زیادہ بہتر ہے۔ فیس بک کا اک اکاؤنٹ بھی بنا چکا تھا۔ لیکن کبھی استعمال کرنے کا نہیں سوچا۔ پھر اک دن یونہی خیال آیا کہ چلو دیکھ لیتے کیا چیز ہے۔ فیس بک آخر اس میں کیا بات ہے۔ جو لوگ اِس کے دیوانے ہیں۔ فیس بک میں ایسا کیا ہے۔ جیسے شور سمجھنے میں قاصر ہے۔ پھر شور کو اپنا وہ مشہور قول یاد آیا جو پوسٹ کے شروع میں درج ہے۔ چند دنوں سے شور کا فیس بک میں ہاتھ پاؤں مارہا ہے۔ اِس سے شور کے ہاتھ میں کبھی کچھ آجاتا ہے۔ تو کبھی کچھ۔ آج شور کے ہاتھ میں اک خوبصورت قطعہ لگا۔ وہی قطعہ میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
یہ خوبصورت آئٹم اس لنک سے لیا ہے۔

جون ایلیا


بدھ، 6 جنوری، 2010

shor is happy

آج کچھ بات ضرور ہے۔ جو شور بہت خوش ہے۔ کیوں۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرے سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ بس دل ہی دل میں
مسکرا رہا ہے۔ مجھے بھی کچھ نہیں بتا رہا ہے۔ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ آج وہ کسی کو کچھ بتا نے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتظار کیجئیے وہ چند دن بعد خود ہی مجھے بتا دے گا۔ اور میں آپ لوگوں کو بتا دونگاں۔ فلحال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شور بہت خوش ہے۔ اُسے خوش ہونے دیتے ہیں۔ اور ہم انتظار کرتے ہیں۔

shoes

جوتا یونہی تو جوتا نہیں بنتا۔ اُسے جوتا بننے کے لئے وقت اور حالات کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سارے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔ جب سارے مشکلات ختم ہوجاتے ہیں۔ تو اوروں کے لئے نہیں البتہ جوتے کے لئے نہیں مصیبتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ بے چارہ انسان کے پیروں کے نیچے دبنے پہنچ جاتا ہے۔ اور انسان اُسے ہر وقت دبا کر رکھتا ہے۔ کیونکہ انسان کو پتا ہوتا ہے ۔ یہ جب تک دبا ہوا ہے۔ تب تک ٹھیک ہے۔ لیکن جونہی یہ ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ تو سر پر پڑنا لازمی ہے۔ اور انسان یہ دعا گو ہوتا ہے کہ جوتا سر پر پڑتے وقت کسی صف ِ نا زک کے ہاتھ میں نہ ہو۔ ورنہ دن میں تارے اور رات میں سورج آنکھوں کے سامنے جگمگانے لگتے ہیں۔ ویسے جوتے کہ اپنی تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن پرانے زمانے میں استاد کے جوتے سیدھے کرنا باعث ِ فکر ہوتا تھا۔ لیکن آج کل استاد کو جوتے دیکھانے کا رواج ہے۔ ویسے دو جگہ اُن کو چھپایا جانا بھی قابل ِ عمل ہوتا ہے۔ اک جگہ شادی میں۔ جو اس بات کا پیغام ہے ۔ کہ ابھی بھی وقت ہے بھاگ چل ورنہ بعد میں پچھتائے گا۔جب کہ دوسری جگہ مسجد جہاں اِن کو چھپایا یا چرایا جاتاہے ۔ تب یہ بہت یاد آتے ہیں۔ پیر ایک دم اپنے اوقات میں آجاتے ہیں۔ جوتے کو جوتا بنانے کا قصور کس کا ہے۔ یہ تو شاید کسی کو بھی پتا نہیں۔ البتہ جوتے کے قسمت کو بُرا کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو تو بُرا نہیں کہہ سکتا۔

منگل، 5 جنوری، 2010

mobi2weet

موبی 2 ویٹ کے بارے میں شور کو ڈان نیوز سے پتا چلا۔ رجسٹر ہونے کے ٹوئیٹر یا فیس بک کا اکاؤنٹ ہونا ضروری تھا۔ شور کے پاس دنوں اکاؤنٹ تھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنوں جگہ رجسٹر ہونے کے بعد شور نے اُنھیں اب تک استمعال نہیں کیا تھا۔ شور کا ویسے بھی زیادہ وقت بلاگ یا چیٹ روم میں گزرتا ہے۔ اِس لئے اُس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ کہ اِن دونوں پر بھی ایک نظر ڈالے۔ شور دنوں کے پاسورڈ بھی بھول چکا تھا۔ چند دن پہلے اُسے اپنے فیس بک کا پاس ورڈ مل گیا۔ فیس بک میں اپلیکیشن میں موبی 2ویٹ والے اپلیکیشن کو رن کیا۔ وہاں اپنا فون نمبر دیا۔ اُس نے پن نمبر مانگا۔ شور نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ فون کوجھنجوڑا۔ ای میل کو نھچوڑا۔ لیکن پن نمبر نہ ملا۔ اگلے دن شام کو موبائل فون پر ایک نئے نمبر سے ایک ایس ایم ایس مل گیا۔ یہ لیجئیے جناب پن نمبر۔ رات کو نیٹ آن کر کے پن نمبر انٹر کیا ۔ تو رجسٹریشن کی مبارک باد موصول ہوا۔ اب موبی 2 ویٹ پر لاگ اِن ہونے کے لئے شور کا موبائل نمبر اور وہی پن کوڈ انٹر کرنا ہے۔ بہت مشکل سے اور خدا خدا کر کے شور نے آخر کار موبی2ویٹ پر اپنے آپ کو رجسٹر کر لیا۔ ویسے ایک بات کہوں شور کے سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے۔ کہ اَس کو کس طرح استعمال کرے۔ خیر اندھے کی لاٹھی آخر کب کام آئے گا۔ کہیں نہ کہیں تو لگ ہی جائے گا۔

جمعہ، 1 جنوری، 2010

new-year-night

سال کے 365 دنوں میں 365 تاریخیں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر تاریخ کسی نہ کسی کے لئے اہم ہے۔ لیکن سال کا سب سے آخری دن بہت ساروں کے لئے اہم ہے۔ کچھ لوگ اِس کا جشن مناتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے جو خوش منانا تو چاہتے ہیں۔ لیکن اُن کے پاس کوئی ہے نہیں ۔یا وہ اپنے غمِ دنیا میں ایسے الجھے ہیں کہ اُنھیں یہ یاد ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی کوئی بھولا بھکٹا سا ایس ایم ایس اُن کو یہ یاد دلاتا ہے۔ کہ آج سال کا آخری دن ہے۔
ایسے تمام لوگوں کے لئے شور کی طرف سے نیا سال مبارک ہو۔
آج نیو ائیر نائٹ ہے۔
اور آج رات چاند گرہن بھی ہے۔
ایک خاصیت بھی ہے ۔ کہ آج رات چاند کی چودھویں بھی ہے۔ واہ۔ لگتا ہے اِس سال قدرت کے نعمتیں خوب برسے گی۔