صفحات

بدھ، 30 دسمبر، 2009

ehsas

آج پھر بشیر بدر کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔



اُس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد، میرے آنکھ میں آنسو آئے

اُس نے بہت بُرا کیا نا۔

پیر، 28 دسمبر، 2009

pashingoei

چند دن پہلے شور نے ایک پیشنگوئی کی تھی ۔ اور آج وہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن شور کو اپنے اِس پیشنگوئی کے درست ہونے پر بہت دکھ ہورہا ہے۔ شور بار باریہ سوچ رہا ہے۔ کہ اگر شور کی یہ پیشن گوئی اگر غلط ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ کبھی کبھار کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے۔ جن کی خواہش ہم نہیں کرتے ہیں۔ اور عموماً جب ایسا کوئی بات ہوجاتا ہے تو بہت دکھ پہنچتا ہے۔ آج شور کو بہت دکھ ہورہا ہے۔

جمعرات، 24 دسمبر، 2009

dant mein dard


آج شام سے شور کے دانت میں درد ہے اور وہ بار بار دروازے کی طرف نظر گڑائیے بیٹھا ہے۔ کہ کب کوئی آئے اور کہئے۔ آ پ کہ ٹوٹھ پیسٹ میں نمک ہے۔

sach

جھوٹ بولتے، جھوٹ پڑھتے، جھوٹ سنتے، جھوٹ دیکھتے دیکھتے اب ہم جھوٹ کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں۔ کہ اب ہمیں سچ سننا بہت بُرا محسوس ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص سچی بات کہہ دے تو ہم لوگ اُس شخص کے بارے یہی رائے دینے لگتے ہیں کہ یہ شخص فساد پھیلا رہا ہے۔ حالانکہ وہ شخص کوئی فسادی نہیں ہے۔ لیکن ہم لوگ اُس کے بارے میں یہی کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے۔ معاشرہ اُس شخص کو کبھی بھی وہ عزت نہیں دیگا جس کا وہ مستحق ہے۔ وہ شخص تب اچھا یا عزت دار کہلائیے گا۔ جب وہ ہماری طرح جھوٹ بولنا شروع نہ کردے۔

منگل، 22 دسمبر، 2009

kitne pani mein ho

کیسی تحریر چاہئیے وہ کوئی مضمون ہو افسانہ ہو، ناول ہو، نظم یا غزل ہو، اُس کو پڑھنے سے پہلے اگر اُس پر کوئی تبصرہ یا تنقید پڑھ لیا جائیے تو سمجھ لو کہ اُس تحریر کا سارا مزہ ختم ہوگیا۔ کیونکہ تبصرہ یا تنقید نگار آپ کو مجبور کرے گا۔ کہ آپ تحریر کو اُس کی نظر سے دیکھیں جس نظر سے اُس نے دیکھا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو یہ صیحح لگے تبصرہ یا تنقید پہلے پڑھنے سے تحریر کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی، اور پڑھنے والا بھی اپنی پوری توجہ سے اُس تحریر کو پڑھنے میں لگا دے گا۔ لیکن اِس سے یہ بھی تو ہوگا کہ پڑھنے والے کا اپنا نکتہ نظر کے لئے جگہ نہیں بچے گا، اُس کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوگا، یا وہ اپنی کوئی رائے نہیں بنا پائے گا۔
شور کے خیال میں اگر تحریر کو پہلے پڑھا جائے پھر بعد میں اُس پر کئے گئے تنقید یا تبصرے کو دیکھاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ اِس سے پڑھنے والے کو اپنی قابلیت کا اندازہ بھی ہوگا۔ کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔

پیر، 21 دسمبر، 2009

Gulgee

ایک دن شور کچھ پینٹنگ سائٹ دیکھ رہا تھا۔ اک لنک پر نظر پڑی لکھا ہوا تھا ، گل جی ۔ نام کچھ سنا سنا ساتھا، پھر شور کو یاد آیا کہ کہیں اسماعیل گل جی تو نہیں ہے۔ وہ مشہور پاکستانی پینٹر جس کو چند سال پہلے بے دردی سے قتل کیا گیا۔ گل جی کو شاید دسمبر کے مہینے میں قتل کیا گیا۔ اور آج بھی دسمبر ہے۔
اُس لنک پر گل جی کی چند پینٹنگ رکھے ہوئے ہیں۔
گل جی


جمعرات، 17 دسمبر، 2009

qasor war kon?

ہر ایک یہی کہتا ہے۔ دوسرے نے اُسے دھوکہ دیا ہے۔ وہ بُرا آدمی ہے۔ اُس نے میرے ساتھ بُرا کیا۔ لیکن کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ اُس نے کسی کا بُرا کیا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے۔ کہ وہ صیحح ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے وہ اچھا ہے۔ اور ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ میں تو اچھا تھا لیکن اُس نے غلط کیا ۔ کیا ہر وقت دوسرا غلط ہوتا ہے۔ وہ نہیں کیا ہر بار قصور سامنے والے کا ہوتا ہے۔ اُس کا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جناب سامنے والا کم ہی قصور وار ہوتا ہے۔ زیادہ تر غلطی ہم خود کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی غلطی مانتے نہیں۔ اور ہمیشہ سامنے والے کو قصوروار کہتے ہیں۔ لیکن سامنے والا بہت کم ہی قصور وار ہوتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بھائی کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے آپ کو قصوروار کہے گا۔ جو اپنی غلطی مان لے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا پاگل کہلائے گا۔ کیونکہ کوئی نارمل انسان اپنی غلطی مان کر خود کو قصور وار نہیں ٹھہراتا۔

بدھ، 16 دسمبر، 2009

pehli bar mohabbat ki hai

شور کو آج کل کے گانے زیادہ پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ آجکل گانوں میں شور زیادہ ہے۔ ایک شور کو دوسرا شور کب برداشت ہوتاہے۔ لیکن کبھی کبھار کچھ سلو ٹریک کو سننے کے دل کہتا ہے کہ دوبارہ سنا جائیے ۔ کچھ گانوں کے شاعری ایسی ہوتی ہے۔ جن کو باربار سننے کا موڈ ہوجاتا ہے۔ چند دن پہلے ایک فلم کا گانا ٹی وی پر چل رہا تھا۔ اُس کی شاعری سننے کے بعد شور کو ایسا لگا کہ اِس گانے کو دوبارہ سنا جائیے۔ لیکن ٹی وی پر اگر ایک بار گانا چل جائیے تو دوبارہ کب پلے ہو جائیے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن شور پاس عمرو عیار کا زنبیل کہلانے والا انٹرنیٹ ہے۔ جس میں نام لے کر طلب کروں۔ تو وہ مل جاتے ہے۔ تو کل رات شور نے وہ گانا ڈاؤن لوڈ کیا۔ ابھی اُس کے کمپیوٹر میں بج رہا ہے۔
فلم کا نام ہے۔ کمینے
شاعری۔ گلزار
گلو کار ۔ موہت چوہان
اور گانے کے بول ہیں۔ پہلی بار محبت کی ہے

kuch kahene ka moqah to do

ایک جگہ چند دوست بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔ گفتگو میں ایک دوست کسی کو بولنے کا موقع نہیں دے رہا تھا۔ جب بھی کوئی کچھ کہے رہا ہوتا۔ تو وہ شخص اُس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر خود کہنے لگتا ۔ کچھ دیر تک اُس کی اِس عادت کو برداشت کیا گیا۔ پھر ایک سے صبر نہ ہوا۔ اُس نے یہ طریقہ اپنایا کہ وہ شخص جب کبھی کچھ کہنے کہ کوشش کرتا وہ بات کو درمیان میں کاٹ لیتا، اُس شخص کو کوئی بھی بات مکمل کرنے نہیں دے رہا تھا۔ اُس شخص نے آخر تنگ آ کر کہا ۔ کہ بھائی مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع دے دو۔ تو اُس شخص نے جواب دیا کہ آپ نے کبھی خود کسی کو بولنے کا موقع دیاتھا جواب موقع مانگ رہے ہو۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود کسی کو بولنے نہیں دیتے لیکن جب اُسے کوئی بولنے نہیں دیتا بُرا مان جاتے ہیں۔

ہفتہ، 12 دسمبر، 2009

net is okay

آج شور کا نیٹ ٹھیک ہوگیا ہے۔ اور شور کے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ شور کیا لکھے۔ چلو شور یہ لکھ لے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کہ آج شور بہت خوش ہے۔ نیٹ کے ٹھیک ہونے پر اکثر لوگ تو خوش نہیں ہوتے لیکن شور بہت خوش ہوا ہے۔ کیونکہ شور ابھی تک بچہ ہے۔

بدھ، 2 دسمبر، 2009

internet problem

شور کے نیٹ کا پورا سسٹم درھم برھم ھے۔ اِس لئے بہت دنوں سے شور غائب ہے۔ ابھی موبائل فون کے ذریعے نیٹ سے کنکٹ ہوکر یہ پوسٹ لکھ رہا ہے۔ اور شور نے ابھی تک اپنے پیارے دوست مجھے نہیں بلکہ اپنے بلاگ کو بھی عید مبارک نہیں کہا۔
عید مبارک بلاگ اگر یہ مبارک باد باسی ہے تو کیا ہوا۔