صفحات

منگل، 15 نومبر، 2011

Sub Chor Hain

ایک پرانا لطیفہ ہے۔
باغ کے مالی نے دیکھا چند بچے درخت پہ چڑ کے پل چوری کر رہے ہیں۔ مالی نے بچوں کو ڈانٹا۔ اور کہا کہ چوری کرتے ہو چل میں تمھارے ابّو سے تمھاری شکایت کرتا ہوں۔ بچے نے فوراً جواب دیا ۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ساتھ والے درخت پہ ابو بھی پل توڑ رہے ہیں۔
اس لطیفے کو پڑھ کر اگر ہنسی نہیں آئی تو کوئی بات نہیں۔ کیونکہ یہ ہنسنے کی بات نہیں۔ بلکہ یہ موجودہ معاشرے کے اُس سوچ کی عکاسی کررہا ہے۔ جہاں سب چور ہیں۔کوئی چھوٹا چور ہے تو کوئی بڑا چور۔ ہر ایک نے اپنے چوری کا کوئی نہ کوئی بہانہ سوچ رکھا ہے۔ کوئی اِسے مجبوری کا نام دے کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو کوئی اپنی چوری کو ضرورت کا نام دے کر خود کو تسلیاں دیتا ہے۔ اور کسی کسی نے تو چوری کو اپنا شوق بنا رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سب چور ہیں۔ بیٹا چور ہے تو باپ بھی چور ہے۔ کوئی پل چراتا ہے تو کوئی پیسے۔ کوئی کفن چراتا ہے تو کوئی پورے کا پورا مردہ۔ افسوس کی بات یہ ہے کسی بھی چور کو اپنی چوری پر ذرا سا بھی شرمندگی نہیں۔ کیونکہ اِس حمام میں سب کے سب چور ہیں۔