صفحات

moashira لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
moashira لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 30 جولائی، 2010

na shukray

جب کم ملتا ہے تو شور کرتے ہیں۔ اور جب بہت زیادہ ملتا ہے۔ تب بھی شور مچاتے ہیں۔ہر کوئی رونی سی صورت بنائے کہہ رہا تھا کہ پانی نہیں ہے۔ ہمارا پانی چور ہورہا ہے۔ ہمارے پیاسے مرنے کے دن قریب آرہے ہیں۔ تو اللہ پاک کو ہم پر رحم آگیا۔ اور اپنے رحمت کے دروازے کھول دیئے۔ تو پھر شکایت کر رہے ہیں۔ کہ سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ کیسے ناشکرے لوگ ہیں ہم ۔ کم پہ راضی نہیں ہیں زیادہ پر پریشان ہیں۔

پیر، 26 جولائی، 2010

Tomorrow Today

کل

“شور! دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں جو مجھے بدل سکے”

آج

“شور! بیوی صرف دو باتیں بول دے نا انسان کی سات پشتیں بدل جاتی ہیں۔”

پیر، 19 اپریل، 2010

Zameer

شور اپنے ایک دوست کے بارے میں اکثر یہی سوچتا تھا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے۔ وقت آنے پر ویسا ہرگز نہیں کرے گا۔ کیونکہ شور نے بہت ساری لوگوں کو دیکھا ہوا تھا جو کہتے تو بہت کچھ ہیں۔ ہر کسی کو نصحیت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اپنے کہے باتوں پہ کبھی خود عمل نہیں کرتے۔ جن جن باتوں پہ وہ لوگوں کو روکتے ۔ موقع ملنے پر سب سے پہلے وہی لوگ اُس کام کو کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن آج شور نے دیکھا کہ شور کے اُس دوست نے وہی کیا جو اُس کے دل نے، ضمیر نے کہا۔ اُس نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا کرکے اُس مالی نقصان مل جائے گا۔ ایسے لوگ معاشرے میں بہت کم ہوتے ہیں۔ جو اپنے بات پہ قائم رہتے ہیں۔ جب انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔ ایسے ذہنیت کے لوگوں کو عام طور پہ پاگل کہا جاتا ہے۔ لیکن شور ایسے لوگوں کو سلام کرتا ہے۔ کیونکہ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بدھ، 20 جنوری، 2010

Ghulami

موجودہ معاشرے میں دو طرح کے غلام ہوتے ہیں۔ کچھ جسمانی طور پر اور کچھ ذہنی طور پر۔ جسمانی طور پر جو لوگ غلام ہوتے ہیں۔ وہ تو مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن مجبور ہوتے ہوئے وہ باشعور بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ شعور ہوتا ہے۔ کہ وہ غلام ہیں۔ اِس لئے وہ اپنے آپ کو غلامی سے نجات دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ غلامی سے خود کو آزاد بھی کرتے ہیں۔
لیکن وہ لوگ جو ذہینی طور پر غلام ہیں۔ اُن کی حالت قابلِ رحم ہے۔ قابل ِرحم اِس لئے کیونکہ وہ خود کو غلام نہیں سمجھتے ۔ جب کہ وہ خود کو غلام ہی نہیں سمجھتے اِس لئے اُن کے دماغ میں کبھی بھی آزاد ہونے کا خیال ہی نہیں آتا۔ کبھی کبھار تو وہ لوگ اپنی غلامی پر فکر بھی کرتے ہیں۔ اِسے لوگ ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ ہاں اُن غلامی کی کیٹیگری میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ لیکن وہ غلام ہوتے ہیں۔

جمعرات، 17 دسمبر، 2009

qasor war kon?

ہر ایک یہی کہتا ہے۔ دوسرے نے اُسے دھوکہ دیا ہے۔ وہ بُرا آدمی ہے۔ اُس نے میرے ساتھ بُرا کیا۔ لیکن کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ اُس نے کسی کا بُرا کیا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے۔ کہ وہ صیحح ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے وہ اچھا ہے۔ اور ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ میں تو اچھا تھا لیکن اُس نے غلط کیا ۔ کیا ہر وقت دوسرا غلط ہوتا ہے۔ وہ نہیں کیا ہر بار قصور سامنے والے کا ہوتا ہے۔ اُس کا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جناب سامنے والا کم ہی قصور وار ہوتا ہے۔ زیادہ تر غلطی ہم خود کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی غلطی مانتے نہیں۔ اور ہمیشہ سامنے والے کو قصوروار کہتے ہیں۔ لیکن سامنے والا بہت کم ہی قصور وار ہوتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بھائی کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے آپ کو قصوروار کہے گا۔ جو اپنی غلطی مان لے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا پاگل کہلائے گا۔ کیونکہ کوئی نارمل انسان اپنی غلطی مان کر خود کو قصور وار نہیں ٹھہراتا۔