صفحات

منگل، 15 نومبر، 2011

Sub Chor Hain

ایک پرانا لطیفہ ہے۔
باغ کے مالی نے دیکھا چند بچے درخت پہ چڑ کے پل چوری کر رہے ہیں۔ مالی نے بچوں کو ڈانٹا۔ اور کہا کہ چوری کرتے ہو چل میں تمھارے ابّو سے تمھاری شکایت کرتا ہوں۔ بچے نے فوراً جواب دیا ۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ساتھ والے درخت پہ ابو بھی پل توڑ رہے ہیں۔
اس لطیفے کو پڑھ کر اگر ہنسی نہیں آئی تو کوئی بات نہیں۔ کیونکہ یہ ہنسنے کی بات نہیں۔ بلکہ یہ موجودہ معاشرے کے اُس سوچ کی عکاسی کررہا ہے۔ جہاں سب چور ہیں۔کوئی چھوٹا چور ہے تو کوئی بڑا چور۔ ہر ایک نے اپنے چوری کا کوئی نہ کوئی بہانہ سوچ رکھا ہے۔ کوئی اِسے مجبوری کا نام دے کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو کوئی اپنی چوری کو ضرورت کا نام دے کر خود کو تسلیاں دیتا ہے۔ اور کسی کسی نے تو چوری کو اپنا شوق بنا رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سب چور ہیں۔ بیٹا چور ہے تو باپ بھی چور ہے۔ کوئی پل چراتا ہے تو کوئی پیسے۔ کوئی کفن چراتا ہے تو کوئی پورے کا پورا مردہ۔ افسوس کی بات یہ ہے کسی بھی چور کو اپنی چوری پر ذرا سا بھی شرمندگی نہیں۔ کیونکہ اِس حمام میں سب کے سب چور ہیں۔

بدھ، 21 ستمبر، 2011

تماشہ

عجبیب تماشہ ہے۔ تماشہ کرنے والا تماشہ ہے۔تماشہ کروانے والا تماشہ ہے۔ تماشہ بننے والا تماشہ ہے۔ تماشہ بنوانے والا تماشہ ہے۔ تماشہ دیکھنے والا تماشہ ہے۔ تماشہ دیکھانے والا تماشہ ہے۔ سب تماشہ ہے۔ ہر تماشہ پہلے سے بڑھیا ہے۔ اور ہر تماشہ پہلے سے گٹھیا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ وہ تماشہ ہیں۔ اور سب خوش ہیں کہ وہ تماشہ ہیں۔ بس الجھن اِس بات کی ہے جب پردہ گرے گا اور تماشہ ختم ہوگا تب کیا ہوگا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کچھ نہیں ہوگا  جو ہوگا وہ بھی ایک تماشہ ہوگا

جمعہ، 15 جولائی، 2011

درندہ

 روٹی اور بوٹی کے لئے لڑنے والے کو کتا کہتے ہیں اور جو روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے لڑتا ہے اُس بے چارے کو عام آدمی کہتے ہیں۔ بے چارا اِس لئے کیونکہ یہ ساری زندگی روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کے لئے جہدوجد کرتا رہتا ہے۔ ساری زندگی روتا ہے گِڑگِڑاتا ہے تاکہ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کے لڑائی میں شامل رہے۔ اور افسوس کے بات یہ ہے کہ اِس لڑائی میں اُس کے جیتنے کے امکان بہت ہی کم ہیں۔ اور ہارنے کے امکان حد سے زیادہ ہیں۔، لیکن پھر بھی ایک عام آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے لڑنا ہے۔ یہ لڑائی اُس کی مجبوری اور ضروری ہے۔
اور جو کرسی کے لئے لڑتے اور لڑواتے ہیں۔ شور اُنھیں درندہ کہہ رہا ہے۔ آپ شاید اُسے سیاست دان کہتے ہیں۔

بدھ، 25 مئی، 2011

Chup

کہیں دنوں سے شور چپ ہے۔ وجہ نامعلوم، کہیں پھر لکھنے سے بور تو نہیں ہوگیا۔ میں نے سوچا،شور کی بہت بُری عادت ہے۔ وہ جلدی بور ہوجاتا ہے۔ یونہی وہ آج مل گیا تو پوچھ لیا۔ کہاں غائب ہو سرکار گرمیوں کی چھٹیاں منانے تو نہیں چلے گے۔  پسینے سے شرابور، شور کا رنگ کچھ اترا اترا سا تھا۔  لگتا ہے رنگ پسینے کے ساتھ بہہ گیا ہے۔ ویسے کوئی اور وقت ہوتا تو میں یہ شعر بھی پڑھ لیتا۔
پسینے پسینے ہوئے جارہے ہو
یہ بولو کہاں سے چلے آ رہے ہو
مگر شور کی حالت دیکھ کر چپ رہا ۔ اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔
آج کل فکرِ دنیا میں اتنا سرکپا رہا ہوں کہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا ۔جس دن تھوڑا وقت نکال کر لکھنے کا موڈ بنا لیتا تھا۔ بجلی روٹھ جاتی ۔  بجلی سی لڑنے کی جو تھوڑی بہت ہمت میں مجھ میں تھی۔ اُس کا ستیاناس گرمی نے کردیا ہے۔ بس یہی وجہ ہے میرے چپ رہنے کی۔
میرے زبان پہ ایک شعر آ کر رکھ گیا۔
بجلی اور گرمی نے کچھ اور نکما کردیا غالب
ورنہ شور ویسے بھی کہاں آدمی تھا کام کا
اچھا کیا جو شعر نہیں سنایا ورنہ شور ناراض ہوجاتا۔ اچھا پھر کبھی بات کریں گے۔