انسان بھی کتنا کمینہ ہوتا ہے۔ اُسے بس ایک چھوٹا سا موقع مل جائے وہ اپنی کمینگی کا مظاہرہ کردیتا ہے۔ کمینہ پن کا مظاہرہ کرنے میں وہ چھوٹے سے چھوٹے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور جب اُسے کچھ اچھا کرنے کو مل جائے تو وہ ٹال مٹول سے اِس موقع کو ضائع کردیتا ہے۔ حالانکہ اُسے اچھا کرنے کے موقع بُرا کرنے کے مواقع سے زیادہ ملتے ہیں۔ لیکن وہ اُن موقعوں کو اُتنی جلدی فائدہ نہیں اُٹھاتا ۔
یہ شور کی سوچ ہے۔ جو تلخ تو ہے۔ اِس میں تجربے کی سچائی ہے۔
log لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
log لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بدھ، 30 مارچ، 2011
بدھ، 5 جنوری، 2011
Bahis
ہم لوگ بھی عجیب ہیں بس ایک موضوع چاہئیے۔ بحث کرنے کیلئے، پھر بحث کرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم اُس موضوع پر تب تک بحث کرتے جائیں گے۔ جب تک ہمیں کوئی دوسرا موضوع نہ مل جائے۔ پھر وہی لمبی اور لاحاصل بحث ۔ ذرا سوچئے اگر ہم لوگ اِس "بحث، بحث، بحث" کے بجائے "کام، کام، کام"پر توجہ دیتے تو کیا آج ہم اِس حال میں ہوتے۔
جمعہ، 17 دسمبر، 2010
sms fraud
Ap jo koi bhi ho plz mere is num 03427163501 pe 25rps send kr do main hospital main musibt man hum plz Allah'rasol k waste mera yakin kro bad mai wapis kr don gi
From:+923327362363
2010/12/17
09:23AM
یہ ایس ایم ایس پڑھ کر شور کو کچھ رحم آگیا۔25 روپے بھی کوئی رقم ہے۔ شور اُس نمبر والے یا والی کو رقم بھیجنے کے لئے تیار ہوگیا۔ لیکن ایک خیال نے شور کو روک دیا۔ جس موبائل فون سے یہ محترم یا محترمہ نے ایس ایم ایس کیا اگر وہ اپنا موبائل فون کو اپنے آس پاس کے کسی بندے کو خریدنے کی آفر کرے۔ تو شور کو یقین ہے کہ کم سے کم سو روپے تو مل ہی جائیں گے۔
شور نے اِس ایس ایم ایس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیا جواب دیتا۔ آپ ہوتے تو کیا جواب دیتے۔
From:+923327362363
2010/12/17
09:23AM
یہ ایس ایم ایس پڑھ کر شور کو کچھ رحم آگیا۔25 روپے بھی کوئی رقم ہے۔ شور اُس نمبر والے یا والی کو رقم بھیجنے کے لئے تیار ہوگیا۔ لیکن ایک خیال نے شور کو روک دیا۔ جس موبائل فون سے یہ محترم یا محترمہ نے ایس ایم ایس کیا اگر وہ اپنا موبائل فون کو اپنے آس پاس کے کسی بندے کو خریدنے کی آفر کرے۔ تو شور کو یقین ہے کہ کم سے کم سو روپے تو مل ہی جائیں گے۔
شور نے اِس ایس ایم ایس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیا جواب دیتا۔ آپ ہوتے تو کیا جواب دیتے۔
جمعہ، 30 جولائی، 2010
na shukray
جب کم ملتا ہے تو شور کرتے ہیں۔ اور جب بہت زیادہ ملتا ہے۔ تب بھی شور مچاتے ہیں۔ہر کوئی رونی سی صورت بنائے کہہ رہا تھا کہ پانی نہیں ہے۔ ہمارا پانی چور ہورہا ہے۔ ہمارے پیاسے مرنے کے دن قریب آرہے ہیں۔ تو اللہ پاک کو ہم پر رحم آگیا۔ اور اپنے رحمت کے دروازے کھول دیئے۔ تو پھر شکایت کر رہے ہیں۔ کہ سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ کیسے ناشکرے لوگ ہیں ہم ۔ کم پہ راضی نہیں ہیں زیادہ پر پریشان ہیں۔
بدھ، 28 اکتوبر، 2009
تنہا شخص
آج شور ایک شخص کے وجہ سے بہت اداس ہے۔ اُس کی حال پرافسوس کرنےکو دل چاہ رہا ہے۔ وہ شخص کا وقت جب اچھا تھا تو اُسے لوگوں کی محفل سے فرصت نہیں تھی۔ ہر جگہ اُس شخص کا ذکر، ہرایک کی زبان پر اُس کا نام ۔ آج جب اُس شخص کے پاس کچھ نہیں اور اُس کا پاس سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ تو لوگوں نے اُس کے پاس آنا چھوڑ دیا ہے۔ آج وہ بلکل تنہا ہے۔ شور کو اُس کا حال دیکھ کر بہت دکھ ہورہا ہے۔ آج وہ تنہا بیٹھ کر اپنے اچھے دونوں کو یاد کررہا ہے۔
عروج کا سفر بہت اچھا اور لاجواب ہوتا ہے جیسے جیسے یہ سفر جارہی رہتا ہے۔ انسان کا قد اونچا ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جونہی یہ سفرکی زوال کی جانب شروع ہوتا ہے ۔ انسان کی جان نکال دیتا ہے۔
عروج کا سفر بہت اچھا اور لاجواب ہوتا ہے جیسے جیسے یہ سفر جارہی رہتا ہے۔ انسان کا قد اونچا ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جونہی یہ سفرکی زوال کی جانب شروع ہوتا ہے ۔ انسان کی جان نکال دیتا ہے۔
جاہل اور بحث
آج ایک صاحب نے گفتگو کے دوران ایک غلط بات کہہ دی۔ شور نے اُس کی غلطی کی نشاندہی کردی۔ تو وہ صاحب شور سے اُلجھنے لگے اور بار بار کہنے لگے کہ میں صیحح ہوں اور تم غلط ہو۔ وہ اپنی غلطی کو درست ثابت کرنے کے لئے قسم قسم کے دلائل دے رہے تھے۔اور وہ شور کو مجبور کررہاتھا کہ وہ اُس کی غلطی کو صیحح تسلیم کرے۔ شور نے کچھ دیر تک تو اُسے سمجھانے کی کوشش کی ۔ پھر اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔ کیونکہ
جاہل کے ساتھ بحث مت کرو، کیونکہ لوگوں کو دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔
جاہل کے ساتھ بحث مت کرو، کیونکہ لوگوں کو دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)