صفحات

جمعرات، 29 اکتوبر، 2009

کچرے کی صفائی

ایک شخص کی عادت تھی جب بھی وہ کمرے کی صفائی کرتا، کچرا کمرے کے باہر پھینکنے کے بجائے ، قالین کے نیچے چھپا دیتا۔ کچھ مدت کے بعد قالین کے نیچے دبا ہوا کچرا اُس کے لئے پریشانی کا باعث بنا۔

شور کی مثال بھی اُس شخص کی ہے۔ اُس کے کمپیوٹرمیں ہر دن کچھ نہ کچھ کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔ لیکن شور نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا، اور نا ہی صیحح وقت پر اُسے ٹھکانے لگانے کا کبھی سوچا۔ اب وہ کچرا اُس کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ تین چار دن سے وہ اُسے ٹھکانے لگانے میں لگا ہوا ہے۔ کچھ کچرا ذرا کار آمد سا ہے۔(شور کا کچرا سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے) ۔اُسے جلاکر کے سی ڈیز میں محفوظ کرنے میں لگا ہوا ہے۔۔ یہاں ایک اور پریشانی ۔ کارآمد کچرا بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا۔ پہلے کچرے کو ترتیب سے رکھنا تھا۔ پھر اُسے جلا کر محفوظ کرنے میں شور کا بہت وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اگر وہ شروع دن سے سارا کچرا ترتیب سے رکھنے کی عادت ڈالتا تو آج اُس کا بہت سارا وقت بچ جاتا ۔لیکن شور کی تو عادت تھی ۔ ہر کام طریقہ سے کرتا۔ معلوم ہوا کہ یہاں کچرے کے بے ترتیبی میں شور سے زیادہ شور کے چھوٹے بھائی کا ہاتھ ہے۔ وہ جب بھی کمپیوٹر پر قبضہ کرتا۔ کسی نہ کسی چیز کو اُس کی جگہ سے اِدھر اُدھر ہوجانا لازمی بات ہے۔ شور اُسے کچھ کہتا تو کچھ دن ناراضگی ۔۔۔۔ جب ناراضگی ختم تو پھر وہی قبضہ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ وہی بے ترتیبی ۔ ۔ ۔ ۔ وہی شور کی باتیں۔ ۔ ۔ ۔اب شور کرے بھی تو کیا یہی نا کہ وہ اُس بے ترتیب کچرے تو ترتیب سے رکھے پھر جلا کر محفوظ کرلے۔ وہی تو کررہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں