صفحات

جمعہ، 30 جولائی، 2010

na shukray

جب کم ملتا ہے تو شور کرتے ہیں۔ اور جب بہت زیادہ ملتا ہے۔ تب بھی شور مچاتے ہیں۔ہر کوئی رونی سی صورت بنائے کہہ رہا تھا کہ پانی نہیں ہے۔ ہمارا پانی چور ہورہا ہے۔ ہمارے پیاسے مرنے کے دن قریب آرہے ہیں۔ تو اللہ پاک کو ہم پر رحم آگیا۔ اور اپنے رحمت کے دروازے کھول دیئے۔ تو پھر شکایت کر رہے ہیں۔ کہ سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ کیسے ناشکرے لوگ ہیں ہم ۔ کم پہ راضی نہیں ہیں زیادہ پر پریشان ہیں۔

بدھ، 28 جولائی، 2010

One Tips

نیٹ یوزر کی زیادہ تر تعداد اپنے دوستوں، رشتہ داروں سے بات کرنے کے لئے ہی نیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اور اِن نیٹ یوزرز کی پسندیدہ سائٹ یاؤ ، فیس بک اور ٹیوٹر ہیں۔ آج کل جی میل بھی اِس لسٹ میں شامل ہو رہا ہے۔ لیکن جی میل میں نئے دوست بنانے کی گنجائش نہیں ہے۔(اگر ہے تو شور اِس بارے میں لاعلم ہے۔)
لیکن یہ اِس پوسٹ کی وجہ نہیں ہے۔ تو وجہ کیا ہے۔ ناراض نہ ہوجائیے۔ ابھی بتادیتے ہیں۔
چند دنوں سے شور کا نیٹ بیمار ہے۔ نیٹ کی نبض اتنی کمزور ہے۔ کہ مرگ کا کَٹکا لگا رہتا ہے۔ کسی بھی سائٹ کا اوپن ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پر اَس زمانہ میں اگر فرہاد کے تیشئے میں دم کم نہیں ہے ۔ تو کیا ہوا ۔ اور بازار سے لے آئیں گے اگر سستا ہوا دودھ ۔ (پریشان مت ہوجائیں آج شور دیوانِ غالب پڑھ رہا تھا۔) ویسے بازار جانے کی ضرورت نہیں ۔ اگر آپ کا نیٹ کی رفتار بہت سلو ہے۔ اور آپ کے یہ تینوں سائٹ اوپن ہونے میں بہت دیر لگا رہے ہیں۔ یا آپ جلدی میں اِن سائٹس کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو اِس ترکیب کو استعمال کیجئیے ۔
یاؤ کے لئے ٹائپ کریں۔
http://sg.m.yahoo.com/
فیس بک کے لئے ٹائپ کریں۔
http://m.facebook.com/
اور ٹیوٹر کے لئے ٹائپ کریں۔
http://m.twitter.com/

پیر، 26 جولائی، 2010

No Comments

ٹھنڈی ہوا جو روح میں اتر رہی ہے۔ کھڑکی سے آکر مجھے اتنا سکون دے رہا ہے۔ کہ جی چاہتا ہے۔ بس یونہی آنکھیں بند کر کے اِس ہوا کی ٹھنڈک کو محسوس کر تا رہوں۔ دھیمے سُروں میں بجنے والا خوبصورت گانا جسے سن کر “اُسے” میں اپنے آس پاس محسوس کرنے لگا ہوں۔
شور! یہ “اُسے” “کسے”ھم جان سکتے ہیں۔
نہیں۔کبھی نہیں۔

Tomorrow Today

کل

“شور! دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں جو مجھے بدل سکے”

آج

“شور! بیوی صرف دو باتیں بول دے نا انسان کی سات پشتیں بدل جاتی ہیں۔”

Bad Post

شور اپنے غائب ہونے کی خبر پڑھ کر مجھ سے ملنے کو مجبور ہوگیا۔ وہ بجھا بجھا سا تھا۔ پوچھا کیا بات ہے۔ تو جواب دیا کہ میں بلاگنگ چھوڑ نے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ایک انجانے دوست نے کہا۔آپ کی ہمت کی داد دینی پڑے گی۔ (مجھے (شور کو) فوراً چنے کا جاڑ آگیا۔کیونکہ جب بھی کوئی شور کی تعریف کرتا ہے تو شور کے تصور میں چنے کا جاڑ آتا ہے) آپ لکھنے کے لئے وقت کیسے نکال پاتے ہو۔میں نے جواب دیا ۔ کہ میں تو بہت کم لکھتا ہوں۔ ہفتے میں ایک آدھا تحریر ، کچھ لوگ تو ہر دن ہر گھنٹے لکھتے رہتے ہیں۔ اُن کے ہمت کی داد دینی چاہیئے۔ میرا جواب سن کر وہ انجانا دوست کہنے لگا یہ تو صیحح ہے لیکن آپ کو بھی سلام ہے۔ میں تو چند جملے بھینہیں لکھ پاتا ہوں۔
اُس انجانےدوست کی باتوں سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔ اور میں دوبارہ لکھنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
یہ تو اچھی بات ہے شور! کہ کسی نے آپ کی حوصلہ افزائی کی ۔ لیکن اداس کیوں ہو۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے۔
لیکن کل ایک انگریزی پیپر میں، میں نے کچھ ایسا پڑھا کہ مجھے اپنے تمام تحریر بکواس لگنے لگی۔ اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ اب تک جتنا بھی میں نے لکھا ہے۔ اُن کو اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دوں۔
لیکن شور! ساری تحریریں تو کمپیوٹر پہ سیو اور انٹر نیٹ پہ پبلیش ہیں۔ میرے کمپیوٹر کو کھڑکی کے باہر پھینک دینا چاہتے ہو تو پھینک دو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ انٹر نیٹ پہ وہ تحریریں تو ہیں۔ اور اگر انٹرنیٹ کو کھڑکی سے پھینکنے کا آئیڈیا دماغ میں آرہا ہے۔ تو مجھے ضرور بتا دینا تاکہ میں بھی اُس پہ عمل کر سکوں۔
کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
میں پھر کہنے لگا۔
شور آپ کو کسی نے کہا ہے۔ کہ آپ کی تمام تحریریں بکواس ہیں۔
نہیں۔
تو پھر ۔ کس بناء پر آپ اپنی تحریروں کو ضائع کرنا چاہتے ہو۔ اور ہاں وہ انگریزی پیپر اگر آپ کے پاس ہے۔ تو دکھاؤ
شور نے جیب سے ایک اخبار کا ٹکڑا نکال کر میرے حوالے کیا۔

Read, read, read. Read everything___trash, classics, good and bad, and see how they do it. Just like a carpenter who works as an apprentice and studies the most. Read! You’ll absorb it. Then write. If it is good, you’ll find out. If it’s not, throw it out the window.
(William Faulkner)

شور یہ بڑے لوگ کی بڑی باتیں صرف بڑے لوگوں کے لئے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے لئے نہیں۔ چلو باہر چلتے ہیں۔
میں شور کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد میں نے اپنے جیب سے ایک کاغذ نکال کر چپکے سے پھینک دیا۔

جمعہ، 16 جولائی، 2010

shor is missing

کہیں دن ہوئے شور غائب ہے۔ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا۔ لیکن کچھ بھی پتا نہیں چلا ۔کوئی کہہ رہا تھا۔ فٹبال کا عالمی مقابلہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ اِس لئے غائب ہے۔ جہاں تک مجھے پتا ہے۔ شور کو فٹبال سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ اور اگر اُس کی وجہ فٹبال مقابلے ہیں تو اب وہ بھی ختم ہوچکے ہیں۔ کہیں وہ گرمیوں کی چھٹیاں منانے کو کہیں گیا تو نہیں۔ لیکن یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ چھٹیاں وغیرہ طالب علموں کے لئے ہیں۔ اور شور کو اسکول چھوڑے ایک دہائی ہوچکا ہے۔ ویسے مجھے لگتا ہے۔ وہ مجھ ناراض یا بے زار ہوچکا تھا۔ اِس لئے اُس نے خود کو غائب کرلیا۔
چلو شور کو اُس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اتنا تو مجھے یقین ہے۔ وہ لوٹ کر ضرور آئے گا۔