کہیں دنوں سے شور چپ ہے۔ وجہ نامعلوم، کہیں پھر لکھنے سے بور تو نہیں ہوگیا۔ میں نے سوچا،شور کی بہت بُری عادت ہے۔ وہ جلدی بور ہوجاتا ہے۔ یونہی وہ آج مل گیا تو پوچھ لیا۔ کہاں غائب ہو سرکار گرمیوں کی چھٹیاں منانے تو نہیں چلے گے۔ پسینے سے شرابور، شور کا رنگ کچھ اترا اترا سا تھا۔ لگتا ہے رنگ پسینے کے ساتھ بہہ گیا ہے۔ ویسے کوئی اور وقت ہوتا تو میں یہ شعر بھی پڑھ لیتا۔
پسینے پسینے ہوئے جارہے ہو
یہ بولو کہاں سے چلے آ رہے ہو
مگر شور کی حالت دیکھ کر چپ رہا ۔ اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔
آج کل فکرِ دنیا میں اتنا سرکپا رہا ہوں کہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا ۔جس دن تھوڑا وقت نکال کر لکھنے کا موڈ بنا لیتا تھا۔ بجلی روٹھ جاتی ۔ بجلی سی لڑنے کی جو تھوڑی بہت ہمت میں مجھ میں تھی۔ اُس کا ستیاناس گرمی نے کردیا ہے۔ بس یہی وجہ ہے میرے چپ رہنے کی۔
میرے زبان پہ ایک شعر آ کر رکھ گیا۔
بجلی اور گرمی نے کچھ اور نکما کردیا غالب
ورنہ شور ویسے بھی کہاں آدمی تھا کام کا
اچھا کیا جو شعر نہیں سنایا ورنہ شور ناراض ہوجاتا۔ اچھا پھر کبھی بات کریں گے۔
bijli لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
bijli لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بدھ، 25 مئی، 2011
منگل، 27 اکتوبر، 2009
روز تار کٹنے سے۔۔۔۔۔۔۔
دو تین سے شور کو بجلی نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ کبھی حاضر کبھی غائب ادھر شور کمپیوٹر کے آگے بیٹھے اُدھر بجلی غائب ۔ لگتا ہے بجلی اور شور کی کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہے۔جب بھی بجلی چلی جاتی ہے شور کو بشیر بدر کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔۔ لگتا ہے بجلی اور شور کی کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہے۔جب بھی بجلی چلی جاتی ہے شور کو بشیر بدر کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
روز تار کٹنے سے رات کے سمندرمیں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لئے ضروری ہے اک دیا جلا کر تم دل کے پاس رکھ دو
روز تار کٹنے سے رات کے سمندرمیں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لئے ضروری ہے اک دیا جلا کر تم دل کے پاس رکھ دو
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)