صفحات

بدھ، 25 مئی، 2011

Chup

کہیں دنوں سے شور چپ ہے۔ وجہ نامعلوم، کہیں پھر لکھنے سے بور تو نہیں ہوگیا۔ میں نے سوچا،شور کی بہت بُری عادت ہے۔ وہ جلدی بور ہوجاتا ہے۔ یونہی وہ آج مل گیا تو پوچھ لیا۔ کہاں غائب ہو سرکار گرمیوں کی چھٹیاں منانے تو نہیں چلے گے۔  پسینے سے شرابور، شور کا رنگ کچھ اترا اترا سا تھا۔  لگتا ہے رنگ پسینے کے ساتھ بہہ گیا ہے۔ ویسے کوئی اور وقت ہوتا تو میں یہ شعر بھی پڑھ لیتا۔
پسینے پسینے ہوئے جارہے ہو
یہ بولو کہاں سے چلے آ رہے ہو
مگر شور کی حالت دیکھ کر چپ رہا ۔ اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔
آج کل فکرِ دنیا میں اتنا سرکپا رہا ہوں کہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا ۔جس دن تھوڑا وقت نکال کر لکھنے کا موڈ بنا لیتا تھا۔ بجلی روٹھ جاتی ۔  بجلی سی لڑنے کی جو تھوڑی بہت ہمت میں مجھ میں تھی۔ اُس کا ستیاناس گرمی نے کردیا ہے۔ بس یہی وجہ ہے میرے چپ رہنے کی۔
میرے زبان پہ ایک شعر آ کر رکھ گیا۔
بجلی اور گرمی نے کچھ اور نکما کردیا غالب
ورنہ شور ویسے بھی کہاں آدمی تھا کام کا
اچھا کیا جو شعر نہیں سنایا ورنہ شور ناراض ہوجاتا۔ اچھا پھر کبھی بات کریں گے۔