آپ کو پتا ہے وہ خاموش سا شخص کون ہے۔ نہیں ۔ تو میں بتا دیتا ہوں۔ وہ شخص ہے میرا دوست شور۔
شور کو جنم دن مبارک ہو
اگر دیکھنا چاہتے ہو تو کسی بچے کی ہنسی دیکھو ۔ ایک شفاف ہنسی جس میں ذرا بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ جو خالص ہے۔ شبنم کے بوند کے طرح۔ جو پاک ہے۔ کسی فرشتے کی طرح ۔ کسی بچے کی ہنسی میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہے ۔ جھوٹ تو تب شامل ہوتا جب بچہ عقل اور شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ اگر عقل و شعور ہمیں انسان بنا نے میں مدد دیتے ہیں لیکن ہم سے بہت کچھ چین لیتے ہیں۔
وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتہ نہیں
شدت کی دھوپ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں نظر سے گرا نہیں
آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی تھے ہم کو کسی نے جیا نہیں
جس کی مخالفت ہوئی مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں
تاریکوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں
کس نے جلائیں بستیاں، بازار کیوں لٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں
بشیر بدر
انسان ہر وقت سنجیدہ رہے ۔ رنجیدہ رنجیدہ باتیں کرے، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ چلو آج شور آپ کو ایک مزاحیہ ویڈیو دیکھتا ہے۔
شاعر شعر کیوں لکھتے ہیں؟ اس جواب اک شاعر ہی دے سکتا ہے۔ لیکن شاعر کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ صرف چند مصرعوں میں وہ پوری بات کہہ دیتے ہیں۔
شاعر اپنے خیالات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم اُس خیال میں اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ اشعار بہت پسند آتے ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے۔ جیسے یہ ہماری دل کی آواز تھی جو شاعر بیان کی ہے۔ شور کو بھی یہ اشعار بھی اپنے اپنے لگے۔
تجھ کو تنہا کر گیا منفر رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے جو صرف اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسروں کا کام بڑی مشکل سے تیار ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو صرف دوسروں کاکام کرنے میں ہی خوش رہتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہما وقت اس کوشش میں رہتے ہیں دوسرا کا کام پہلے ہو۔ بلے اس کی وجہ سے اُس کا اپنا کام رہ جائے۔ پہلے زمانہ میں ایسے بہت اچھے سمجھے جاتے تھے ایسے لوگوں کی بہت عزّت تھی ۔ لیکن آج کل کے اِس جدید دور میں ایسے لوگوں کولوگ بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں سے دوسرے لوگ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ حقیقت میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن شور کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں۔کیوں ؟ کیونکہ شور خود بھی اسی فطرت کا مالک ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کہیں دفعہ نقصان اُٹھا چکا ہے۔
انسان اپنے اچھائیوں پر فخر کرتا ہے۔ فخر کرنابھی چاہئیے کیونکہ یہ فخر کرنے کی بات ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو بڑے فخر کے ساتھ اپنی بُرائیاں بیان کرتے ہیں۔ بیان کرتے وقت اُن کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہیں ہوتا۔ اخلاقی پستی شاید ایسی کا نام ہے۔ اور یہی سے ساری خرابیاں جنم لیتے ہیں۔
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے(مکرّر)
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے
میں بھٹکتا ہی رہا درد کے ویرانے میں
وقت لکھتا رہا چہرے پہ یہ ہرپل کا حساب
میری شہرت میری دیوانگی کی نظر ہوئی
پی گئی مئے کی بوتل میری گیتوں کی کتاب
آج لوٹا ہوں تو ہنسنے کی ادا بھول گیا
یہ شہر بھولا مجھے میں بھی اِسے بھول گیا
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے
میرافن پھر مجھے بازار میں لے آیا ہے
یہ وہ جاہ ہے کہ جہاں مہر و وفابکتے ہیں
باپ بکتے ہیں اور لختِ جگر بکتے ہیں
کوکھ بکتی ہے دل بکتے ہیں سر بکتے ہیں
اس بدلتی ہوئی دنیا کا خدا کوئی نہیں
سستے داموں میں ہر روز خدا بکتے ہیں
بکتے ہیں بکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے
ہر خریدار کو بازار میں بکتا پایا
ہم کیا پائیں گے کسی نے یہاں کیا پایا
میرے احساس میرے پھول کہیں اور چلیں
بول پوجا میری بچی کہیں اور چلیں
اور چلیں اور چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عموماً لوگوں کو شور شرابہ پسند نہیں۔ لیکن کچھ شور ایسے ہوتے ہیں۔ جو انسان کے اندر ہوتے ہیں۔ یہ شور انسان کو آرام سے بیٹھنےنہیں دیتا۔ لوگ اکثر اس شور کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔یا زیادہ سے زیادہ کسی کو سنا دیتے ہیں۔ یا میری طرح کسی کاغذ کے حوالے کردیتے ہیں۔کاغذ کے حوالے کرنے کے بعد وہ شور دب توجاتاہے۔لیکن بے کار ہوجاتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس شور کو سنئیں میرے آس پاس کہیں لوگ ہیں۔ کہیں ایسے ہیں جو اس قابل ہیں کہ انہیں یہ شور سنایا جائے ۔لیکن وہ لوگ اس شور سے زیادہ شور کرنے والے کو دیکھیں گیں۔ سنئیں۔ جو مجھے پسند نہیں۔ اب کچھ لوگوں کی مہربانی سے اک جگہ کے بارے میں پتا چلا ہے۔جہاں لوگ اپنا شور دوسروں کو سناتے ہیں۔ تو یہی لگا کہ یہی سب سے بہترین جگہ ہے۔ شور کرنے کا، شور سنانے کا ، شور کو سمجھنے کا۔ تو میں ہمت کرکے شور کی ابتداء کرتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ لوگ کہاں تک یہ شور سننتے ہیں۔