صفحات

پیر، 26 جولائی، 2010

Bad Post

شور اپنے غائب ہونے کی خبر پڑھ کر مجھ سے ملنے کو مجبور ہوگیا۔ وہ بجھا بجھا سا تھا۔ پوچھا کیا بات ہے۔ تو جواب دیا کہ میں بلاگنگ چھوڑ نے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ایک انجانے دوست نے کہا۔آپ کی ہمت کی داد دینی پڑے گی۔ (مجھے (شور کو) فوراً چنے کا جاڑ آگیا۔کیونکہ جب بھی کوئی شور کی تعریف کرتا ہے تو شور کے تصور میں چنے کا جاڑ آتا ہے) آپ لکھنے کے لئے وقت کیسے نکال پاتے ہو۔میں نے جواب دیا ۔ کہ میں تو بہت کم لکھتا ہوں۔ ہفتے میں ایک آدھا تحریر ، کچھ لوگ تو ہر دن ہر گھنٹے لکھتے رہتے ہیں۔ اُن کے ہمت کی داد دینی چاہیئے۔ میرا جواب سن کر وہ انجانا دوست کہنے لگا یہ تو صیحح ہے لیکن آپ کو بھی سلام ہے۔ میں تو چند جملے بھینہیں لکھ پاتا ہوں۔
اُس انجانےدوست کی باتوں سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔ اور میں دوبارہ لکھنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
یہ تو اچھی بات ہے شور! کہ کسی نے آپ کی حوصلہ افزائی کی ۔ لیکن اداس کیوں ہو۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے۔
لیکن کل ایک انگریزی پیپر میں، میں نے کچھ ایسا پڑھا کہ مجھے اپنے تمام تحریر بکواس لگنے لگی۔ اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ اب تک جتنا بھی میں نے لکھا ہے۔ اُن کو اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دوں۔
لیکن شور! ساری تحریریں تو کمپیوٹر پہ سیو اور انٹر نیٹ پہ پبلیش ہیں۔ میرے کمپیوٹر کو کھڑکی کے باہر پھینک دینا چاہتے ہو تو پھینک دو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ انٹر نیٹ پہ وہ تحریریں تو ہیں۔ اور اگر انٹرنیٹ کو کھڑکی سے پھینکنے کا آئیڈیا دماغ میں آرہا ہے۔ تو مجھے ضرور بتا دینا تاکہ میں بھی اُس پہ عمل کر سکوں۔
کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
میں پھر کہنے لگا۔
شور آپ کو کسی نے کہا ہے۔ کہ آپ کی تمام تحریریں بکواس ہیں۔
نہیں۔
تو پھر ۔ کس بناء پر آپ اپنی تحریروں کو ضائع کرنا چاہتے ہو۔ اور ہاں وہ انگریزی پیپر اگر آپ کے پاس ہے۔ تو دکھاؤ
شور نے جیب سے ایک اخبار کا ٹکڑا نکال کر میرے حوالے کیا۔

Read, read, read. Read everything___trash, classics, good and bad, and see how they do it. Just like a carpenter who works as an apprentice and studies the most. Read! You’ll absorb it. Then write. If it is good, you’ll find out. If it’s not, throw it out the window.
(William Faulkner)

شور یہ بڑے لوگ کی بڑی باتیں صرف بڑے لوگوں کے لئے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے لئے نہیں۔ چلو باہر چلتے ہیں۔
میں شور کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد میں نے اپنے جیب سے ایک کاغذ نکال کر چپکے سے پھینک دیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں