صفحات

ہفتہ، 13 مارچ، 2010

purani dairy

آج شور کے زبان پر گلزار کے اک خوبصورت غزل کا یہ شعر اٹھکا ہوا ہے۔
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
اک پرانا خط کھلا انجانے میں
(اس غزل کو غلام علی نے "وصال" البم میں اپنی آواز دی ہے۔ غزل کو ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے اس لنک کو کلک کیجئیے)
وجہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وجہ یہ ہے کہ آج پرانے اخباروں کے نیچے شور کو اپنا اک پرانا رائٹنگ پیڈ مِلا۔ پیڈ میں کچھ پرانی تحریریں، کچھ اشعار اور کچھ چھوٹے چھوٹے نوٹس جو مختلف کتابوں سے لئے تھے ملے۔ اِن کو پڑھ کر شور ماضی کے کچھ خوشگوار یادوں میں کھوگیا۔
شور یہ سوچ رہا ہے کہ ڈائری لکھنا بھی کتنا اچھا کام ہے۔ یہ وہ لکھنا ہے جسے انسان بغیر کسی غرض کے لکھتا ہے۔ انسان اور لکھنے کا ساتھ تو ویسے ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ اسکول کے ہوم ورک سے لے کر نوکری کے درخواست تک ، روزی روٹی کے لئے کبھی کسی فائل پر قلم گھسیٹنا ہو یا دیواروں پر نقش و نگار کرنا سب لکھنا ہے۔ لیکن ہر لکھنے میں خوشی سے زیادہ مجبوری ہے۔ اگر خوشی کا عنصر ہے تو بہت ہی کم۔ لیکن ڈائری میں لکھنا آپ کی مجبوری نہیں ہے۔ یہ آپ کی چاہت ہے، خوشی ہے۔ آج اگر آپ اپنے ڈائری میں کسی چیز کے بارے میں کچھ بھی لکھتے ہیں۔ چند سال کے بعد اگر وہی لکھا آپ کو دوبارہ پڑھنے کو مل جائے تو اک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اور کسی بھی احساس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں