جگجیت سنگھ کی یہ نظم کل سے ذہن میں گھوم رہا ہے۔ پہلا اور آخری مصرعہ مرزا غالب کا ہے ۔ باقی کس شاعر نے لکھا ہے کسی زمانے میں یاد تھا لیکن اب ذہن سے نکل گیا ہے۔ سال کا پہلا پوسٹ اِس خوبصورت نظم کے ساتھ
اک براہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اک براہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ظلم کی رات بہت جلدی ڈھلے گی اب تو
آگ چولہوں میں ہر اک روز جلے گی اب تو
بھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
چین کی نیند ہر اک شخص یہاں سوئے گا
آندھی نفرت کی چلی گی نہ کہیں اب کے برس
پیار کی فصل اُگائے گی زمیں اب کے برس
ہے یقیں اب نہ کوئی شور شرابہ ہوگا
ظلم ہوگا نہ کہیں خون خرابہ ہوگا
اوس اور روپ کے صدمے نہ سہے گا کوئی
اب میرے دیس میں بے گھر نہ رہے گا کوئی
نئے وعدوں کا جو ڈالا ہے وہ جال اچھا ہے
رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں