جوتا یونہی تو جوتا نہیں بنتا۔ اُسے جوتا بننے کے لئے وقت اور حالات کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سارے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔ جب سارے مشکلات ختم ہوجاتے ہیں۔ تو اوروں کے لئے نہیں البتہ جوتے کے لئے نہیں مصیبتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ بے چارہ انسان کے پیروں کے نیچے دبنے پہنچ جاتا ہے۔ اور انسان اُسے ہر وقت دبا کر رکھتا ہے۔ کیونکہ انسان کو پتا ہوتا ہے ۔ یہ جب تک دبا ہوا ہے۔ تب تک ٹھیک ہے۔ لیکن جونہی یہ ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ تو سر پر پڑنا لازمی ہے۔ اور انسان یہ دعا گو ہوتا ہے کہ جوتا سر پر پڑتے وقت کسی صف ِ نا زک کے ہاتھ میں نہ ہو۔ ورنہ دن میں تارے اور رات میں سورج آنکھوں کے سامنے جگمگانے لگتے ہیں۔ ویسے جوتے کہ اپنی تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن پرانے زمانے میں استاد کے جوتے سیدھے کرنا باعث ِ فکر ہوتا تھا۔ لیکن آج کل استاد کو جوتے دیکھانے کا رواج ہے۔ ویسے دو جگہ اُن کو چھپایا جانا بھی قابل ِ عمل ہوتا ہے۔ اک جگہ شادی میں۔ جو اس بات کا پیغام ہے ۔ کہ ابھی بھی وقت ہے بھاگ چل ورنہ بعد میں پچھتائے گا۔جب کہ دوسری جگہ مسجد جہاں اِن کو چھپایا یا چرایا جاتاہے ۔ تب یہ بہت یاد آتے ہیں۔ پیر ایک دم اپنے اوقات میں آجاتے ہیں۔ جوتے کو جوتا بنانے کا قصور کس کا ہے۔ یہ تو شاید کسی کو بھی پتا نہیں۔ البتہ جوتے کے قسمت کو بُرا کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو تو بُرا نہیں کہہ سکتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں