آج شور اپنے کمپیوٹر میں محفوظ شاعری پڑھنے کے موڈ میں تھا۔ اُسے احمد فراز کی ایک خوبصورت غزل نظر آیا ہے۔ ویسے بھی موبائل والوں اور خاص طور پر ایس ایم ایس کرنے والوں نے فراز کے نام کو اتنا بدنام کردیا ہے۔ کہ لوگ بھول گئے ہیں فراز کی اصل شاعری کا کیا رنگ ہے۔ اور کس مزاج کا فراز شاعر ہے۔ شور کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ کوئی بکواس ایس ایم ایس پہ فراز کا نام آتا ہے۔
پتا نہیں کس چیز کا بدلا یہ لوگ فراز کے ساتھ لے رہے ہیں۔ اچھا تو وہ غزل پڑھئے جو آج پورا دن شور کے دماغ میں گردش کرتا رہا۔
غزل
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کا مسافر تو
مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں
ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو
میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی
میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو
ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے
یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو
فضا اداس ہے، رت مضمحل ہے میں چپ ہوں
جو ہوسکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زَر اور صرف شاعر تو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں