یہ خوبصورت غزل شور کو کسی نے سنایا تھا۔ آج شور اِس کو آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کررہا ہے۔
وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتہ نہیں
شدت کی دھوپ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں نظر سے گرا نہیں
آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی تھے ہم کو کسی نے جیا نہیں
جس کی مخالفت ہوئی مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں
تاریکوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں
کس نے جلائیں بستیاں، بازار کیوں لٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں
بشیر بدر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں