صفحات

اتوار، 25 اکتوبر، 2009

Aaina mujhse meri pehli si sorat mange


آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے(مکرّر)
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

میں بھٹکتا ہی رہا درد کے ویرانے میں
وقت لکھتا رہا چہرے پہ یہ ہرپل کا حساب
میری شہرت میری دیوانگی کی نظر ہوئی
پی گئی مئے کی بوتل میری گیتوں کی کتاب
آج لوٹا ہوں تو ہنسنے کی ادا بھول گیا
یہ شہر بھولا مجھے میں بھی اِسے بھول گیا
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

میرافن پھر مجھے بازار میں لے آیا ہے
یہ وہ جاہ ہے کہ جہاں مہر و وفابکتے ہیں
باپ بکتے ہیں اور لختِ جگر بکتے ہیں
کوکھ بکتی ہے دل بکتے ہیں سر بکتے ہیں
اس بدلتی ہوئی دنیا کا خدا کوئی نہیں
سستے داموں میں ہر روز خدا بکتے ہیں
بکتے ہیں بکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگے
آئینہ مجھ سے میری پہلی سے صورت مانگے

ہر خریدار کو بازار میں بکتا پایا
ہم کیا پائیں گے کسی نے یہاں کیا پایا
میرے احساس میرے پھول کہیں اور چلیں
بول پوجا میری بچی کہیں اور چلیں
اور چلیں اور چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں